کیا ہر نماز میں صرف فرض نماز پڑھ لینے سے بندہ بری الذمہ ہوگیا۔یعنی اس کی نماز ہوگئی یا سنتِ مؤکدہ پڑھنا ضروری ہے؟
فرض نماز تو فرض ہے اور سنتِ مؤکدہ کا چھوڑنا برا ہے اور اس کے چھوڑ لینے کی عادت بنا لینا بھی گناہ ہے، سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل میں اختیار ہے خواہ پڑھے یا چھوڑ دے ۔
لہذا صرف فرض نماز ادا کرنے سے آدمی فرض نماز سے تو بری الذمہ ہو جائے گا اور اس کی نماز ادا ہوجائے گی، لیکن سنت کو چھوڑنے کی عادت بنا لینے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، اور سنت مستقل چھوڑنے سے روزِ قیامت شفاعت سے محرومی کا ڈر بھی ہے، البتہ اگر وقت تنگ ہو اور صرف فرض پڑھنے کی مقدار وقت باقی ہو تو سنتوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 12):
"(قوله: وسن مؤكدًا) أي استنانًا مؤكدًا؛ بمعنى أنه طلب طلبًا مؤكدًا زيادة على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر كما في شرحه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144201200406
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن