بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف لا الہ الا اللہ پڑھیں یا محمد رسول اللہ بھی ساتھ پڑھیں


سوال

صرف لاالہ الااللہ پڑھنا ہے یا اس کے ساتھ محمد رسول اللہ بھی ساتھ پڑھنا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ  لا إله إلا الله  اور  محمد رسول اللہ  ملا کر اسلام کا ایک رکن ہے، بہت سی احادیث میں ان دونوں کلموں کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے لیے تو ان دونوں کلموں کی دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے ان دونوں کا اقرار  کرنا ضروری ہے۔

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال:لا إله إلا الله  کے ساتھ  محمد رسول اللہ ملا کر پڑھنا درست ہے یا کہ نہیں ، اگر پڑھنا درست ہے تو ثبوت مع حوالہ احادیث قرآن مجید پیش کریں۔

الجواب: درست کیا ضروری ہے، بہت سی احادیث میں جہاں ارکانِ اسلام کا ذکر آیا ہے ان دو جملوں کی شہادت کو ایک رکن قرار دیا گیا ہے، یہ صاف دلیل ہے جمع کی اعتقاد میں بھی اور اقرار میں بھی اور یہ امر بہت ظاہر ہے"۔

(کتاب العقائد والکلام، ج: 4، ص: 407، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

جہاں تک ذکر کا تعلق ہے تو مختلف احادیث میں کلمہ لا إله إلا الله  کے ذکر کی فضیلت وارد ہوئی ہے،ترمذی میں حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت میں اس کلمہ کو "افضل الذکر" فرمایا گیا ہے، اس لیے ذکر کرتے وقت صرف لا إله إلا الله کا ورد کیا جائے، البتہ کبھی کبھی اس کے ساتھ  محمد رسول اللہ کا اضافہ بھی کر لینا چاہیے۔

تسہیلِ تربیت السالک میں ہے:

لا إله إلا الله ضرب  اور جہر کے بغیر چھ تسبیح آہستہ آہستہ پڑھا کریں اور کبھی کبھی اس کے ساتھ محمد رسول اللہ  ملا لیا کریں۔"

 

(ج: 2، ص: 91، ط: زمزم پبلشرز)

عبيد الله مباركپوری رحمہ اللہ (م: 1414ہجری) کی کتاب" مرعاۃ المفاتیح شرح مشكاۃ المصابیح" میں ہے:

"قلت: كلمة لا إله إلا الله كلمة إسلام وكلمة ذكر فإذا قالها الكافر ليدخل في الإسلام، فهي كلمة إسلام وكلمة الإسلام هي كلمتا الشهادة جميعاً، وإذا ذكر بها المسلم فهي ذكر كسائر الأذكار، كما قال صلى الله عليه وسلم أفضل الذكر لا إله إلا الله، والظاهر أن المراد في حديث الباب تلقينها من حيث أنها كلمة ذكر فلا يشترط قول محمد رسول الله عند المحتضر فإنه ليس بذكر وإن كان ركن الإسلام".

(كتاب الجنائز، باب ما يقال عند من حضره الموت، 5/ 308)

 مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(أفضل الذكر: لا إله إلا الله» ) : وفي رواية: هي أفضل الحسنات. رواه أحمد، لأنه لا يصح الإيمان إلا به. قال الطيبي: ذكر بعض المحققين أنه إنما جعل التهليل أفضل الذكر، لأن للتهليل تأثيرا في تطهير الباطن عن الأوصاف الذميمة التي هي معبودات في باطن الذاكر. قال تعالى: {أفرأيت من اتخذ إلهه هواه} [الجاثية: 23] فيفيد نفي عموم الآلهة بقوله: لا إله، ويثبت الوحدة بقوله: إلا الله، ويعود الذكر عن ظاهر لسانه إلى باطن قلبه، فيتمكن فيه ويستولي على جوارحه، وجد حلاوة هذا من ذاق".

(كتاب أسماء الله تعالى، ثواب التسبيح والتحميد والتهليل والتكبير، 4/ 1598، دار الفكر)

وفيه أيضاً:

"(فأفضلها قول: لا إله إلا الله) ] أي: هذا الذكر فوضع القول موضعه، ويؤيده ما ورد بلفظ: أفضل الذكر لا إله إلا الله، لا موضع الشهادة ; لأنها من أصله لا من شعبه".

(كتاب الإيمان1/ 70، دار الفكر)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بني الإسلام على خمس: ‌شهادة أن ‌لا ‌إله ‌إلا ‌الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان".

(‌‌‌‌كتاب الإيمان، باب: دعاؤكم إيمانكم، 1/ 11 ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا ‌يحيى بن حبيب بن عربي ، قال: حدثنا ‌موسى بن إبراهيم بن كثير الأنصاري، قال: سمعت ‌طلحة بن خراش قال: سمعت ‌جابر بن عبد الله يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أفضل الذكر لا إله إلا الله، وأفضل الدعاء الحمد لله ".

(‌‌‌‌أبواب الدعوات،  باب ما جاء أن دعوة المسلم مستجابة، 5/ 393 ط: دار الغرب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144307102434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں