بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف طلاق کی نیت کرنے سے طلاق کا حکم


سوال

اشرف نے زاہد کا طلاق نامہ لکھا، اشرف نے لکھا' میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں' اشرف کی بھی دوران تحریر طلاق کی نیت بن گئی، اشرف نے جملہ میں' اپنی بیوی'کے لکھنے تک طلاق کی نیت نہیں کی، لفظ "کو"  لکھتے وقت محض لفظ 'کو ' میں موجود "ک " کے اوپر والی ڈنڈی کو جو کہ لکیر کی شکل میں ہوتاہے،  طلاق کی نیت سے لکھا،  اور فورا اپنی نیت بدل ڈالی،  کیا محض' ک ' کے اوپر والی ڈنڈی جو کہ لکیر کی شکل میں ہوتاہے،  اگر اشرف طلاق کی نیت سے لکھے گا تو اشرف کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی ؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے وقوع کے لیے ضروری ہے کہ یا تو طلاق کا لفظ زبان سے ادا کیاجائے، یا اگر تحریری طورپر طلاق دے رہاہو تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریر واضح ہواور باضابطہ اور رسمی شکل میں ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  "ک" کی اوپری لکیر لکھتے وقت طلاق کی نیت کرنے سے مذکورہ شخص(اشرف) کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص.

وفي الرد: (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."

(ر‌‌د المحتار، كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج: 3، ص: 230، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة... لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر كما مر."

(‌‌شامي، كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج: 3، ص: 247، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں