بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف لفظ اللہ کا ذکر کرنا


سوال

صرف لفظ  "اللہ" سے ذکر کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صرف لفظِ  "اللہ"  کا ذکر کرنا  جائز ہے،  بلکہ بعض صوفیاء کے نزدیک  اصلاحِ باطن کے لیے نہایت مفید  ہے، اس لیے اس میں شبہ نہ کرنا چاہیے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

اسم جلالہ کے تکرار پر شبہ کا جواب

سوال (۳۱۸۳) : قدیم ۵/۲۲۰-: نسیم الریاض شرح قاضی عیاض(۲)۔ مصنفہ شہاب الدین خفاجی میں ایک استفتاء اور اس کا جواب اور جواب الجواب درج ہے۔ اس کو پیش نظر حضور انور کر کے کچھ عرض کرتا ہوں:

و ههنا بحث و هو أنه قیل: إن ذکر اللّٰہ بتکریر الجلالة بدعة لاثواب فیھا، قال الخطابي في شرح مختصر الشیخ خلیل: سئل العز بن عبد السلام عمن یقول: "اللّٰہ" مقتصرًا علی ذلك، هل هو مثل "سبحان الله"، و "اللّٰه أکبر" و نحوه؟ فأجاب بأنه بدعة لم ینقل مثله عن أحد من السلف، و إنما یفعله الجهلة، و الذکر المشروع لابدّ فیه كلّه من أن یكون جملة مفیدة، و الاتباع خیر من الابتداء، و نحوه ما أفتى به البلقیني في قوم لایزالون یقولون: محمد محمد كثیرًا، ثم یقولون في اٰخره: "مکرم معظم"، فأجاب بأنه ترك أدب و بدعة، لم تنقل و لایثاب فیها، و كذا قولهم علی محمد و تابعه علیه کثیر من العلماء.

أقول (القائل الشھاب): ماذکرہ في اسم النبیﷺ مکرّرًا من كونه بدعة ظاهر؛ لأنه مع کونه لم ینعبد بمثله داخل في ما نھی عنه بقوله: {لاتجعلوا دعاء الرسول بینكم كدعاء بعضكم بعضاً} کما سیأتي مثله، و لم یرد تعظیم النبيﷺ إلا بالدعاء له و الصلوٰة والسلام علیه، فلو عظم بمثل ذلك كان مراغما للسنة، و لو ذكر أحد سلطانًا باسمه زجروہ و أهانوه، فما بالك بأشرف الخلق و أعظمهم، و أما ذکر الله تعالیٰ فقد ورد الأمر به و و عد ذاکرہ بالثواب في اٰیات وأحادیث لاتحصی کقولہ الذاکرین اللّٰہ کثیراوالذاکرات وفي حدیث القدسي من شغلہ ذکري عن مسئلتي أعطیتہ أفضل ما أعطی السائلین إلیٰ غیر ذلک مما لا یحصی و لم یقید بقید علیٰ أن الذاکر قصدہ التعظیم والتوحید فھو إذا قال اللّٰہ ملاحظاً لمعناہ فکأنہ قال معبودي واجب الوجود مستحق لجمیع المحامد ولم یزل أھل اللّٰہ من العلماء و الصلحاء یفعلونہ من غیر نکیرو کان الأستاذ البکري یفعلہ و یقولُ استغفراللّٰہ مما سو ی اللّٰہ وکل شیٔ یقول اللّٰہ و في مجلسہ أجلۃ العلماء والمشائخ وھذا ھو الحق۔

وقد صنف فی رد مقالۃ ابن عبد السلام ھذہ عدۃ رسائل رأیناھا وممن صنف فیھا القطب القسطلاني والعارف باللّٰہ المرصفي و شیخ عبدالکریم الخلوتي وبہ أفتی من عاصرناہ اللّٰھم احشرنا في جملۃ الذاکرین و لا تجعلنا من الغافلین اھ ج ۱۔ص ۳۷۔۳۸۔
بندہ کی عرض یہ ہے نہ بطور شبہ، بلکہ بطورِ  إنما شفاء العي السؤال کہ جن آیات اور احادیث میں  فضیلت ذکر اللہ  وارد ہے،  منها ماذکره الشهاب،  یہ اگر چہ مطلق ہیں، مگر اس مطلق کو صاحبِ شرع نے اوقات اور حالات و دیگر قیود کے ساتھ ضرور مقید فرمایا ہے، اذ کار اور ادعیہ میں ذرا ذرا سے تغیر پر صاحبِ شرع اور ان کے جانشینوں نے متنبہ فرما دیا ہے، نبیك الذي أرسلت کی جگہ میں برسولك  پر انکار فرمایا۔ ایک شخص نے چھینکنے کے بعد   السلام علیكم کہا اس پر ابن عمرؓ نے متنبہ فرمایا۔ ما هكذا علمنا رسول اللّٰه ﷺ(۱) اور امام بخاریؒ نے ص ۹۴۸ مصطفائی میں جو حدیث فضل ذکر اللہ تعالیٰ میں روایت کی ہے اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ ذکر اللہ سے خاص ذکر مراد ہے۔ حیث قال: یسبحونك ویكبرونك ویحمدونك ویمجدونك إلیٰ قوله: یسئلونك الجنة وإلیٰ قوله: یتعوذون بعد قوله: یلتمسون أهل الذکر، فإذا وجدوا قومًا یذكرون اللّٰہ تنادوا هلموا الخ (۲) اور تتبع احادیث سے احقر کو معلوم ہوا گوبندہ کو اس پر اطمینان نہیں کہ حضور نے اصولِ دعاء کو ثنائے باری اور سوال کے اندر محصور فرمادیا ہے۔ ثناء  جیسے تحمید وتہلیل و تکبیر وحوقلہ ہے۔ اور سوال یا تو  سؤال ما ینفعه ہے۔ یا  تعوذ عما یضره  ہے۔ جس کے شعب میں استغفار اور صلوٰۃ علی النبیﷺ ہے۔ اور تبرک باسماء الحسنیٰ ثناء میں داخل ہے۔ اور یہ  بحذافیرهاجمل مقیدہ ہیں ۔ یا بصورت خبر یابصورت انشاء اور بندۂ ناچیز کی نظر میں کہیں تکرار اسم ذات بصورت افراد نہیں گذرا۔ ایک حدیث میں  اللّٰہ اللّٰہ ربي لاأشرك به شیئاً(۳) ہے۔ وہ بھی جملہ مفیدہ ہے۔ اور حضرت سید کائنات کا ذکر اللہ کو ان الفاظ ماثورہ میں بیان فرمانا اور کہیں تکرار اسم ذات کا بصورت انفراد بیان نہ فرمانا عزبن عبدالسلام کا ضرور مؤید ہے۔ درد و اثر اور بات ہے۔ اور استنباط اور بات ہے ہاں اگر تقریر جلالہ کو بحذف حرف ندا ء اختیار کیا جائے تو ممکن ہے جملہ ہو۔ مگر سنت سے جب بھی ثابت نہیں اور شرّاح حدیث نے قاطبۃ  ذکر اللہ سے: الألفاظ التي ورد الترغیب في قولھا ذکر کیا ہے۔

في فتح الباري والمراد بذکراللّٰہ ھٰھنا الإتیان بالألفاظ التي ورد الترغیب في قولھا والإکثار منھا ویطلق ذکر اللّٰہ أیضا ویراد بہ المواظبۃ علی العمل بما أوجبہ أو ندب إلیہ کتلاوۃ القراٰن وقرأۃ الحدیث ومدارسۃ العلم والتنفل بالصلوٰۃ الخ(۱)۔
پس اخیر میں گزارش ہے کہ حضرات چشتیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے یہاں جو اسم ذات کا وظیفہ معمول ہے اس کا کیا حکم ہے؟  کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ طریقہ یوں رواج پا گیا ہو کہ نفی واثبات کرتے کرتے بعضے بزرگوں نے صرف   إلاَّالله  پر اکتفا  کیا۔ اور پھر بوجہ درود و تجلیات کے    إلاَّبھی غائب ہوگیا۔ رہ گیا فقط "الله"،  بہر حال جو کچھ ہو بندہ نے عرض کر دیا۔ جو کچھ ارشاد ہو بالراس والعین ہے؟

الجواب: تو جیہ ابتداء کی تو وہی اقرب ہے، جو آخر خط میں لکھی ہے۔ باقی دلیل مشروعیت کی اگر نقل جزئی  نہیں ہے اور حدیث  لاتقوم الساعۃ حتی لا یقال فی الارض اللّٰہ اللّٰہ(۲) کو نقل جزئی  نہ مانا جائے تو نقل کلی یا استنباط کے دعوے کی ضرور گنجائش ہے۔
کما نقل عن کثیر من الا کابر فی السؤال اور اس دعویٰ میں اختلاف مضر نہیں کشأن سائر الاجتھادیات اور استنباط بھی ثبوت بالنص ہی کی ایک فرد ہے۔ فان القیاس مظہر لا مثبتاور گو اس صورت میں اس طریق ذکر کو طریق منقول صریح سے مفضول کہا جاوے گا۔ لیکن عارض نفع خاص کے سبب(کہ وہ دفع وساوس وجمع خواطر ہے جو کہ مشاہدہ ہے) بعض کے لیے اس کو عملاً ترجیح دی جا سکتی ہے۔ جیساکہ ایسے ہی مصالح کے سبب ذکر جلی کو ذکر خفی پر کہ دلائل سے اس کا افضل ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح اعلان صدقہ کا اخفاء صدقہ پر بعض کے  لیے عملاً راجح ہونے کو فقہاء نے لکھا ہے۔ اور اگر اس کو مستنبط بھی نہ کیا جاوے جیسا ابن عبدالسلام کی رائے ہے۔ مگر تاہم منہی عنہ بھی نہیں اور مشاہدہ سے اس کا جمع خواطر میں جو کہ مامور بہ ہے۔ معین ہونا معلوم ہے۔ پس مثل دیگر تدابیر امور مطلوبہ شرعیہ کے یہ بھی مطلوب ہوگا ولو لغیرہ اور گو تقدیر حرف ندا سب سے اچھی توجیہ ہے،  مگر غالباً تاویل القول ما لایرضی بہ قائلہ میں داخل ہے اور نبیك کے تغیر پر انکار نہی نہیں ترک اولیٰ پر انکار ہے۔ اور ابن عمرؓ کا انکار تغییر موظف پر ہے اور یہاں تکرار جلالہ کے وقت کوئی ذکر موظف نہ تھا۔ پس ان دونوں کو مبحث سے مس نہیں ۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں