بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف اللہ کہہ کر کسی انسان کو پکارنا


سوال

 میرے علاقے میں ایک شخص ہے جسے لوگ اللہ کے نام سے پکارتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی کے وہ صفاتی نام جو اللہ کے ساتھ خاص ہیں ،بندوں کے لیے اس کا استعمال  جائز نہیں، مزید یہ کہ لفظ " اللہ" تو اللہ رب العزت کا اسم ذاتی ہے،جس کا اطلاق غیر اللہ کے لیے کسی حال میں جائز نہیں بلکہ حرام اور سخت گناہ ہے البتہ اگر اللہ تعالیٰ کے وہ صفاتی نام جو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں یا اللہ تعالیٰ کے اسم ذاتی یعنی لفظ "اللہ" کے ساتھ کسی کا نام رکھنا یا استعمال کرنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" لگانا ضروری ہے ،لہذا اگر کوئی شخص ان ناموں کو "عبد" کی اضافت کے بغیر استعمال کرے تو اس طرح کرنا ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا  ، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کو صرف لفط "اللہ" سے پکارنا قطعاً جائز نہیں ہے۔

اس کی تفصیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز اور  گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘

(ماخوذ از تفسیر معارف القرآن ،ج:۴4،ص:132،مکتبہ معارف القرآن )

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وذكر غير واحد من العلماء ‌أن ‌هذه ‌الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز إطلاقه على غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار، والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين۔۔۔۔۔۔۔"

(سورۃ الاعراف،ج:5،ص:115،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية

قوله ‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل"

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:417،سعید)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب۔۔۔۔۔وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیتہہ واحکامہا،ص:125، ط: دارالبیان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں