بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف ایک بیٹی میں وراثت کی تقسیم


سوال

 اگر کسی بیٹی کا والد وفات پاجائے ، اور وہ اس کی اکلوتی بیٹی ہو، یعنی اس کے علاوہ اور کوئی اولاد نہ ہو،  تو اس کی جائداد اس کی بیٹی کو مل سکتی ہے؟ اگر مل سکتی ہے تو کتنی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کے انتقال کے وقت  صرف اس کی بیٹی  زندہ ہو، بیٹا،بیوہ، والدین،پوتا، پوتی، بھائی ، بہن، بھتیجا، چچا یا  چچا زاد بھائی وغیرہ نہ ہوں، تو اس کی جائیداد کی تنہا وارث اس کی  بیٹی ہوگی، لہذا مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر ان کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے اداکرنے کے بعد ، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، بقیہ ماندہ سارا مال مرحوم کی بیٹی کو ملے گا۔

لیکن اگرمرحوم کے انتقال کے وقت  ذکر کردہ رشتہ داروں میں سے کوئی موجود ہو تو تقسیم مختلف ہوگی، رشتہ داروں کی تفصیل بتا کر تفصیل معلوم کر لی جائے۔

رد المحتار میں ہے:

"ثم مسائل الرد أربعة أقسام، لأن المردود عليه إما صنف أو أكثر وعلى كل إما أن يكون من لا يرد عليه أو لا يكون(ف) الأول (إن اتحد جنس المردود عليهم) كبنتين أو أختين أو جدتين (قسمت المسألة من عدد رءوسهم) ابتداء قطعا للتطويل.

(قوله: من عدد رءوسهم) أي رءوس ذلك الجنس الواحد فيما إذا كان في المسألة أكثر من شخص واحد ورأس ذلك الشخص الواحد إن كان هو فيها وحينئذ تكون المسألة واحدا اهـ شرح ابن الحنبلي (قوله: قطعا للتطويل) أي يجعل القسمة قسمة واحدة."

(كتاب الفرائض، مسائل الرد، ج:6، ص:788، ط:ايچ ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں