بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف ایک بیٹی میں وراثت تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

میری والدہ مرحومہ کا  ایک مکان ہے ، ان کا انتقال2014 میں ہوا ہے، اور ورثاء میں صرف میں ہوں، میری ایک خالہ تھی ان کا انتقال 2010 میں ہوا ،ان کی کوئی اولاد نہیں ہے،اور نہ ہی میری والدہ کے خاندان میں کوئی حیات ہے، نیز میرے والد محترم کا انتقا ل بھی والدہ سے پہلے ہی 2010 میں ہوگیا تھا، میں اکلوتی ہوں ۔

اب سوال یہ ہے کہ میری والدہ کے انتقال کے بعد مذکورہ وراثت کس کی ہوگی؟شرعی طور پر مکان کس کا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مرحومہ کے انتقال کے وقت اگر ان کی صرف ایک ہی بیٹی زندہ ہو، اور کوئی وارث نہ ہو، والدین،پوتا، پوتی، بھائی ، بہن، بھتیجا، چچا یا  چچا زاد بھائی وغیرہ کوئی بھی نہ ہوں،  تو ان کی جائیداد کی تنہا وارث اس کی  بیٹی ہوگی، لہذا صورت مسئولہ میں اگر مرحومہ کا کوئی عصبہ وارث یعنی آبائی خاندان کا کوئی مرد حیات نہ ہو (جیسا کہ سوال میں لکھا ہے) تو  مرحومہ کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر ان کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے اداکرنے کے بعد ، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی ماندہ سارا ترکہ مرحومہ کی بیٹی کو ملے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ثم مسائل الرد أربعة أقسام، لأن المردود عليه إما صنف أو أكثر وعلى كل إما أن يكون من لا يرد عليه أو لا يكون (ف) الأول (إن اتحد جنس المردود عليهم) كبنتين أو أختين أو جدتين (قسمت المسألة من عدد رءوسهم)ابتداء قطعا للتطويل."

(کتاب الفرائض،باب الرد،ج:6،ص:788 ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101426

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں