بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سر پر مسح کا طریقہ اور گردن پر مسح کا حکم


سوال

مسح کا کیا طریقہ ہے؟ کیا گردن کا مسح بدعت ہے؟

جواب

 سر پر مسح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو گیلا کرنے کے بعد دونوں ہتھیلیوں کو انگلیوں سمیت سر کے اگلے حصے پر رکھ کر آگے سے پیچھے لے جائے اور پیچھے سے آگے لے آئے، اور ان ہی ہاتھوں سے (اگر خشک نہ ہوگئے ہوں اور اگر خشک ہوگئے ہوں تو دوسری دفعہ پانی میں تر کر کے)  کانوں کا مسح اس طرح کرے کہ شہادت کی دونوں انگلیوں سے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا مسح اور دونوں انگوٹھوں سے دونوں کانوں کے باہر کے حصہ کا مسح کرے۔

باقی  سرکےمسح میں جومشہورطریقہ ہے کہ  دونوں ہاتھوں کی خنصربنصروسطی کوملاکرسرکےاگلےحصے سےپیچھےکی جانب لےجاتےہیں پھرہتھیلی سےسرکی دونوں جانب کامسح کرتےہوئے پیچھےسےہاتھ آگےکی طرف لاتے ہیں اور سبابہ سےکانوں کےاندراورابہام سےکانوں کےباہرکامسح کرتے ہیں،اس طریقہ کے بارے میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے  فتح القدیر کے حوالہ سے  لکھا ہے کہ اس طریقے کی کوئی اصل کسی حدیث میں  نہیں ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ  نے درایۃ کے حوالہ سے اس طریقہ کو  ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب روایت نقل کرکے  اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی اس روایت کو ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ام المومنین حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور  صحابی سے یہ  روایت منقول ہے ؛ اس  لیے اس طریقہ سے مسح کرنے کو سنت سمجھ کر نہ کیا جائے، البتہ مسح کے استیعاب کے  لیے  یہ طریقہ ایسا ہے کہ پورے سر اور کانوں کے مسح میں ہاتھ اور انگلیوں کا تکرار نہیں ہوتا ؛لہذااگر اس طریقہ پر سنت سمجھے بغیر عمل کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

وضو میں سر کے ساتھ گردن  کا مسح کرلینا مستحب ہے، حنفیہ کا یہی مذہب ہے، اسے بدعت کہنا غلط ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

" (ومسح كل رأسه مرة)  مستوعبة، فلو تركه ودوام عليه أثم (وأذنيه) معا ولو (بمائه)   لكن لو مس عمامته فلا بد من ماء جديد

 (قوله: مرة) لو قال بدله بماء واحد كما في المنية لكان أولى لما في الفتح. روى الحسن عن أبي حنيفة في المجرد إذا مسح ثلاثا بماء واحد كان مسنونا اهـ وعليه حمل في الهداية وغيرها ما استدل به الشافعي من رواية التثليث جمعا بين الأحاديث. ولا يقال: إن الماء يصير مستعملا بالمرة الأولى، فكيف يسن التكرار؟ لما في شرح المنية من أنهم اتفقوا على أن الماء ما دام في العضو لا يكون مستعملا  (قوله: مستوعبة) هذا سنة أيضا، كما جزم به في الفتح، ثم نقل عن القنية أنه إذا داوم على ترك الاستيعاب بلا عذر يأثم، قال: وكأنه لظهور رغبته عن السنة، قال الزيلعي وتكلموا في كيفية المسح. والأظهر أن يضع كفيه وأصابعه على مقدم رأسه ويمدهما إلى القفا على وجه يستوعب جميع الرأس ثم يمسح أذنيه بأصبعيه. اهـ. وما قيل من أنه يجافي المسبحتين والإبهامين ليمسح بهما الأذنين والكفين ليمسح بهما جانبي الرأس خشية الاستعمال، فقال في الفتح: لا أصل له في السنة؛ لأن الاستعمال لا يثبت قبل الانفصال، والأذنان من الرأس."

(کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،ج:1،ص:120،سعید)

وفيه أيضا:

"(ومسح الرقبة) بظهر يديه (لا الحلقوم) لأنه بدعة.

(قوله: ومسح الرقبة) هو الصحيح، وقيل: إنه سنة كما في البحر وغيره (قوله: بظهر يديه) أي لعدم استعمال بلتهما بحر، فقول المنية: بماء جديد لا حاجة إليه كما في شرحها الكبير، وعبر في المنية بظهر الأصابع ولعله المراد هنا (قوله: لأنه بدعة) إذ لم يرد في السنة."

(کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،ج:1،ص:124،سعید)

البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے :

"وفي " الدراية ": وكيفية الاستيعاب أن يبل كفه، وأصابع يديه ويضع بطون ثلاث من كل كف على مقدم الرأس، ويعزل السبابتين والإبهامتين. ويجافي الكفين ويمررهما إلى مؤخر الرأس ثم يمسح الفردين بالكفين ويمرهما إلى مقدم الرأس ويمسح ظاهر الأذنين بباطن الإبهامين وباطن الأذنين بباطن السبابتين ويمسح رقبته بظاهر اليدين، حتى يصير ماسحا ببلل لم يصر مستعملا، هكذا روت عائشة - رضي الله عنها - مسح رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وهكذا المنقول عن السلف وعن أبي حنيفة ومحمد أنه يبدأ من أعلى رأسه إلى جنبيه ثم إلى قفاه عكسه كذا في " مبسوط شيخ الإسلام ".

قلت: حديث عائشة - رضي الله عنها - أخرجه النسائي، «أنها وصفت وضوءه - عليه السلام - ووضعت يديها في مقدم رأسها ومسحت إلى مؤخره، ثم مرت يديها بأذنيها، ثم مرت على خدين» قالوا: الذي ذكره صاحب " الدراية " ونسبه إلى عائشة، لم يذكره أحد من أئمة الحديث على الوجه المذكور ولا عن غير عائشة من الصحابة الذين وصفوا وضوء رسول الله - صلى الله عليه وسلم -. وأخرج أبو داود عن محمد بن حسين، وقد ورد من حديث طلحة بن مصرف، وفيه «رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يمسح رأسه مرة واحدة حتى يبلغ القذال، وهو أول القفاء، وقال مرة: وقد مسح رأسه من مقدمه إلى مؤخره حتى يخرج يديه من تحت أذنيه، وأخرجه الطحاوي، ولفظه: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يمسح مقدم رأسه حتى بلغ القذال من مقدم عنقه» .

وأخرج النسائي حديث عبد الله بن زيد وفيه «ثم مسح رأسه بيديه فأقبل بهما وأدبر بهما إلى مؤخر رأسه ثم جره إلى قفاه ثم جره إلى مؤخره، وعند أبي داود وبدأ بالمؤخر ثم بمقدمه وبأذنيه كليهما، وفي لفظ مسح الرأس كله من قرن الشعر كل ناصيته لمنبت الشعر لا يحول الشعر عن هيئته، وفي لفظ: مسح رأسه وما أقبل وما أدبر وصدغيه»."

(کتاب الطہارۃ،سنن الطہارۃ،ج:1،ص:239،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں