بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سندھ کی زمینوں پر عشر کا حکم


سوال

کیا سندھ کی زمینوں پر عشر واجب ہے یا نہیں ؟ہمارے یہاں کے مقامی علماء ومفتیان کرام فرماتے ہیں کہ سندھ کی زمینوں پر عشر واجب نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی  زمین کے عشری ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ زمین نسلا بعد نسل مسلمانوں کی ملکیت میں چلتی ہوئی آرہی ہو ،درمیان میں کسی کافر مالک کے ہونے کا ثبوت نہ پایا جائے تو بطور استصحاب حال ان زمینوں کا پہلا مالک مسلمان کو ہی سمجھا جائے گا ،اور وہ زمین عشری قرار دی جائے گی ۔

اس کے علاوہ کچھ  اور اراضی بھی ہیں جو عشری کہلاتی ہیں :(1) پاکستان میں غیر مسلموں کی اراضی جو  مسلمانو ں کو دی گئی ۔(2) حکومت پاکستان کی طرف سے نہروں کے ذریعے  نو آباد اراضی جو مسلمانوں کو ملیں ۔(3)حکومت برطانیہ کے وقت مسلمان ریاستوں کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والی اراضی ۔(4)  قیام پاکستان سے قبل یا بعد مسلمانوں نے حکومت پاکستان کی اجازت سے بذات خود ذرائع آبپاشی مہیا کر کے جو اراضی آباد کی ،یہ عشری یا خراجی ہونے میں قرب وجوار والی زمینوں کے تابع ہیں اگر وہ عشری ہیں تو یہ بھی عشری ہوں گی۔

علاقہ سندھ کی زمینوں کو محمد بن قاسم ؒ نے اپنے زمانے میں فتح کرکے ان زمینوں کے مالکان کو ہی ان پر بر قرار رکھا ،اور ان پر خراج مقرر کردیا ،اسی لیے سند ھ کی زمینوں پر عشر لازم نہیں ہے ،البتہ سندھ میں کوٹری بیراج کا علاقہ، اور  اندورون سندھ کی جدید آباد کردہ وہ زمینیں جو حکومت پاکستان کے پانی پہنچانے کے ذرائع کے ذریعے آباد ہوئی وہ عشری ہوں گی۔

چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں:

     "  اسی طرح جن زمینوں کو حکومت پاکستان نے پانی پہنچانے کے ذرائع مہیا کر کے آباد کیا، اور مسلمانوں کو بقیمت یا بلا قیمت تقسیم کیا، جیسے پنجاب میں تھل کا علاقہ اور سندھ میں کوٹری کا علاقہ ان سب زمینوں پر چوں کہ ابتدائی ملکیت مسلمانوں کی ہوئی ، اس  لیے یہ بھی عشری قرار دی جائیں گی ، بشرطیکہ ان کی آبپاشی سندھ و پنجاب کے بڑے بڑے دریاؤں سے ہوتی ہو، جو قدرتی طور پر جاری ہیں، کسی حکومت کے بنائے ہوئے نہیں ، کیوں کہ ایسے دریاؤں کا پانی عشری ہے۔ پنجاب میں تھل کا علاقہ، سندھ میں کوٹری بیراج کا علاقہ، اور اندرون سندھ کی جدید آباد کردہ سب زمینوں کا یہی حکم ہے۔  "

(جواہر الفقہ ،ج:3 ،ص :341 ،ط)

آگے فرمایا:   

   "علاقہ سندھ کے متعلق بہت سے اکابر علماء سندھ نے اس موضوع پر کچھ مقالات یا رسالے تحریر کئے ہیں ، اس وقت میرے پاس ان میں سے ایک قلمی رسالہ " سراج الہند في تحقیق خراج السند " مولانا ہمایونی رحمتہ اللہ علیہ کا ہے، جن کے متعلق مزید حالات کا علم نہیں بجز اس کے کہ ان کا زمانہ حضرت مخدوم ہاشم ٹھٹوی  رحمتہ اللہ علیہ کے بعد کا ہے، اس رسالہ میں انہوں نے مخدوم عبد الواحد سیوستانی کی کتاب" بیاض واحدی "اور شیخ ابو الحسن سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب " رفع الفرية “ اور مخدوم محمد عارف سندھی کی "بیاض" اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کی کتاب "اتحاف الا کا بر " کے حوالے اس مسئلہ میں دیے ہیں ، اور علاقہ سندھ کے متعلق ان سبھی حضرات کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ علاقہ سندھ کی زمینیں خراجی ہیں ، اور استدلال سب کا یہی ہے، کہ اس ملک کو محمد بن قاسم نے  کہیں عنوة اور کہیں صلحا فتح کیا ہے، اور دونوں صورتوں میں مالکان زمین کی ملکیت کو   برقرار رکھ کر ان پر خراج مقرر فرمایا ہے۔

 رسالہ مذکورہ میں شیخ ابوالحسن سندھی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے: قد ثبت في كتب التاريخ ان فتح السند كان في سنة ثلاث وتسعين و كان عنوة الا "مردم چنه" اسلموا طوعاً على ما صرحوا به في التاريخ ۔

(کتب تاریخ سے ثابت ہے کہ سندھ کی اسلامی فتح۱۳ھ میں جنگ و جہاد کے ذریعہ ہوئی ہے بجز  مقام "مردم چنہ" کے لوگوں کے جنھوں نے اول فتح کے وقت اسلام قبول کرلیا) ۔"

(جواہر الفقہ ،ج:3 ،ص :343 ،ط:دار العلوم کراچی)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال: عشری زمین سے متعلق جو کچھ حضور کی تحقیق ہو ،مفصل تحریر فرمائی جاوے۔

الجواب: حاصل مقام یہ ہے کہ جو    زمینیں   اس وقت مسلمانوں کی ملک ہیں، اور ان کے پاس مسلمانوں ہی سے پہنچی ہیںارثا و شراء وهلم جرا،وہ زمینیں عشری ہیں ،اور جو درمیان میں کوئی کافر مالک ہو گیا تھاوہ عشری نہ رہی ،اور جس کا حال کچھ معلوم نہ ہو اور اس وقت مسلمانوں کے پاس ہیں، پھر سمجھا جائے گا کہ مسلمانوں سے حاصل ہوئی ہے۔ بدلیل الاستصحاب پس  وہ بھی مشری ہوں گی۔"

(فصل :فی العشر والخراج،ج: 2،ص: 89 ،ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال: سندھ اور پنجاب کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی:

جواب :جس طرح محمد بن قاسم ؒ کا اراضی سندھ پر خراج مقرر کرنا ثابت ہے اسی طرح یہ امر بھی محقق ہہے کہ بعض علاقوں کے لوگ اسلام لے آئے تھے اسی لئے ان پر عشر مقرر کیا گیا تھا ،مزید بر ایں جن اراضی پر کچھ مدت کے بعد غیر آباد یا لاوارث ہوکر بیت المال کی ملک ہوگئی ہوں ،اور بیت الما ل کی طرف سے کسی مسلمان کو مل گئی ہوں ،غرض یہ کہ تقریبا تیرہ سو سال کے انقلابات کے بعد کسی زمین کی صحیح حقیقت کا حال معلوم کرنا ممکن نہیں ،مگر یہ حکم ان زمینوں کا ہے جوعرصہ دراز سے نسلاً بعد نسل مملوکہ چلی آتی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ اور قسم کی  اراضی بھی ہیں ۔

(1) پاکستان  میں غیر مسلموں کی اراضی جو مسلمانوں کو دی گئیں ۔

(2) تقسیم ہند کے بعد حکومت پاکستان سے مسلمانوں نے جوغیر آباد اراضی قیمۃ یا بلا قیمت لے کر آباد کیں ، یہ عشری یا خراجی ہونے میں قرب وجوار کی اراضی کے تابع ہوں کی اگر قرب وجوار میں دونوں کی راضی ہوں تو یہ نو  آباد اراضی عشری ہوں گی ۔"

(باب العشر والخراج ،ج:3 ،ص: 378 ،ط:سعید)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"کیا فرماتے ہیں علماء دین درایں مسئلہ کہ : علاقہ سندھ کی زمینیں جو کہ انگریز عملداری میں یا بعد میں حکومت پاکستان سے خریدی گئی ہیں ،ان زمینوں کی پیداوار میں شرعی طور پر عشر واجب ہے یا نہ ؟کیونکہ قدیم تاریخی واقعات سے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ زمینیں عشری ہیں یا خراجی۔

 جواب:

 واضح رہے کہ پاکستان کی وہ زمینیں جو اس وقت مسلمانوں کی ملک ہیں، اور ان کے پاس مسلمانوں ہی سے پہنچی ہیں ارثا و شراء وهلم جرا، وہ زمینیں عشری ہیں اور جو درمیان میں کوئی کافر مالک ہو گیا تھاوہ عشری نہ رہی ،اور جس کا حال کچھ معلوم نہ ہو اور اس وقت مسلمانوں کے پاس ہیں، پھر سمجھا جائے گا کہ مسلمانوں سے حاصل ہوئی ہے۔ بدلیل الاستصحاب پس  وہ بھی مشری ہوں گی۔

مگر یہ حکم ان زمینوں کا ہے جوعرصہ دراز سے نسلاً بعد نسل مملوکہ چلی آتی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ اور قسم کی  اراضی بھی ہیں ۔

(1)پاکستان  میں غیر مسلموں کی اراضی جو مسلمانوں کو دی گئیں ۔

(2)حکومت پاکستان کی طرف سے نہروں کے ذریعہ نو آباد اراضی جومسلمانوں کو ملیں ۔

(3)حکومت برطانیہ کے وقت مسلمان ریاستوں کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والی اراضی یہ تینوں قسمیں عشری ہیں ۔

(4)قیام پاکستان سے قبل یا بعد مسلمانوں نے حکومت پاکستان کی اجازت سے بذات خود، ذرائع آب پاشی مہیا کر کے ،جوارضی آباد کیں یہ عشری یا خراجی ہونے میں قرب وجوار کی اراضی کے تابع ہوں کی اگر قرب وجوار میں دونوں کی راضی ہوں تو یہ آباد اراضی عشری ہوں گی۔"

(ج:11 ،ص: 75/ 76 ،ط:جمعیت پبلیکیشنر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408101412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں