بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سمت سے قبلہ سے معمولی انحراف کی وجہ سے نماز کا حکم / نابالغ بچہ اگر کوئی گناہ کرے


سوال

1۔قبلہ کی طرف رخ کرنا کس حد تک ضروری ہے ؟ اگر ہم نے قبلہ  سے ذرا سے ہٹ کر نماز پڑھ لی تو کیا نماز ہوجائے گی ؟

2۔اگر نابالغ بچہ گناہ کرے اور اس کے والدین کو پتہ نہ ہوتو کیا اس کے باوجود بچے کے والدین گناہ گار ہوں گے  ؟

جواب

مکہ سے باہر رہنے والے شخص نے اگر قبلہ کی سمت سے معمولی طور پرہٹ کر نماز پڑھی تو بھی نماز درست ہو جائے گی، معمولی انحراف کا مطلب یہ ہے کہ صرف اس قدر انحراف ہو کہ نمازی کی پیشانی کا کوئی نہ کوئی حصہ قبلہ کی سیدھ میں باقی رہے، اس کی  مقدار فقہاء نے دونوں جانب45، 45 ڈگری  مقرر کی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں معمولی انحراف کی وجہ سے نماز فاسد نہ ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) السادس (استقبال القبلة) حقيقة أو حكما كعاجز، والشرط حصوله لا طلبه، وهو شرط زائد للابتلاء يسقط للعجز، حتى لو سجد للكعبة نفسها كفر (فللمكي) وكذا المدنيلثبوت قبلتها بالوحي (إصابة عينها) يعم المعاين وغيره لكن في البحر أنه ضعيف. والأصح أن من بينه وبينها حائل كالغائب، وأقره المصنف قائلا: والمراد بقولي فللمكي مكي يعاين الكعبة (ولغيره) أي غير معاينها (إصابة جهتها) بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتا للكعبة أو لهوائها، بأن يفرض من تلقاء وجه مستقبلها حقيقة في بعض البلاد خط على زوايا قائمة إلى الأفق مارا على الكعبة، وخط آخر يقطعه على زاويتين قائمتين يمنة ويسرة منح. قلت: فهذا معنى التيامن والتياسر."

 (كتاب الصلاة ، باب شروط الصلاة ، مبحث استقبال القبلة،1/ 427،ط: سعید)

2۔واضح رہے کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرنا اور ان  کو اچھائی کی ترغیب دینا اور برائی سے روکنا یہ والدین کی ذمہ داری ہے، اگر والدین اس میں کمی کوتاہی کریں گے اور بچے کی صحیح تعلیم و تربیت نہیں کریں گے، تو اس کا گناہ والدین کو ہوگا اور کل قیامت کے دن اس متعلق باز پرس بھی ہوگی، لهٰذا اگر والدین اپنی اس  ذمہ داری میں کمی کوتاہی کریں، جس کی وجہ سے بچہ کسی بُری عادت جیسے  گالی دینا وغیرہ میں پڑجائے، تو   والدین کو تعلیم و تربیت میں کمی کوتاہی  کا گناہ ہوگا، لیکن اگر والدین بچے کی صحیح تعلیم و تربیت کریں، پھر بھی اگر بچہ کوئی گناہ کرتا ہے، یا گالی دیتا ہے، تو اس کا گناہ والدین کو نہیں ہوگا اور نہ ہی بچہ کو ہوگا۔البتہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کریں اور ان کو اچھے اخلاق کا عادی بنائیں۔

سنن أبي داود ميں  ہے:

"حدثنا هناد، عن أبي الأحوص، ح وحدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، المعنى، عن عطاء بن السائب، عن أبي ظبيان، قال هناد الجنبي: قال: أتي عمر بامرأة قد فجرت، فأمر برجمها، فمر علي رضي الله عنه، فأخذها فخلى سبيلها، فأخبر عمر، قال: ادعوا لي عليا، فجاء علي رضي الله عنه، فقال: يا أمير المؤمنين، لقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «رفع القلم عن ثلاثة، عن الصبي حتى يبلغ، وعن النائم حتى يستيقظ، وعن المعتوه حتى يبرأ»، وإن هذه معتوهة بني فلان، لعل الذي أتاها وهي في بلائها، قال: فقال عمر: لا أدري، فقال علي عليه السلام، وأنا لا أدري."

(كتاب الحدود، ج:4، ص:140،  ط:المكتبة العصرية)

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «ألا ‌كلكم ‌راع وكلكم مسئول عن رعيته ; فالإمام الذي على الناس راع وهو مسئول عن رعيته، والرجل راع على أهل بيته، وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده وهي مسئولة عنهم، وعبد الرجل راع على مال سيده وهو مسئول عنه، ألا فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته» . متفق عليه." (مشكاة)

مرقاة المفاتيح ميں ہے:

"فالرعاية حفظ الشيء وحسن التعهد، فقد استوى هؤلاء في الاسم ولكن معانيهم مختلفة، أما رعاية الإمام ولاية أمور الرعية: فالحياطة من ورائهم، وإقامة الحدود والأحكام فيهم. ورعاية الرجل أهله: فالقيام عليهم بالحق في النفقة، وحسن العشرة."

(كتاب الامارة والقضاء، ج:6، ص:2402، ط:دار الفكر، بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں