بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

سیمنٹ کے بجائے کیمیکل سے بنے ہوئے بلاک کے خرید وفروخت کا حکم


سوال

ہم خودسیمنٹ کے بلاک بنانے کا کام کرتے ہیں،لیکن آج کل مارکیٹ میں سیمنٹ کے متبادل ایک خاص قسم کیمیکل آیا ہے،جسے تھلے والے بلاک بنانے میں استعمال کرنے لگے ہیں،اس کیمیکل کا فائدہ یہ ہےکہ سیمنٹ کی ایک بوری سے جہاں115بلاک بنتے تھے،کیمیکل کی ایک بوری سے 200 بلاک بنتے ہیں،سیمنٹ کی بوری کی قیمت 1250 روپےجب کہ کیمیکل کی بوری کی قیمت 350 روپے ہیں،سیمنٹ بنانے والی کمپنی سیمنٹ کے 100 سال کی گارنٹی دیتے ہیں جب کہ کیمیکل سازکمپنی کسی قسم کی گارنٹی نہیں دیتے،نیز اکثر بلاک ساز فیکٹری وسیمنٹ ساز  فیکٹری مالکان نے شدید خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مذکورہ کیمیکل سے بننے والی تعمیرات انتہائی خطرناک ہیں،یعنی پائیداری نہ ہونے کے برابر ہے ،تو پوچھنایہ ہے کہ یہ کیمیکل بلاک میں استعمال کرنا جائز ہے یانہیں؟ اگر ناجائز ہے تو ان کی کمائی حلال ہے یاحرام؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا کیمیکل سے بنائے ہوئے بلاکوں میں مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں،ان سے کی گئیں تعمیرات انتہائی خطرناک ہوتی ہیں تو ایسے بلاک بنانے سے احتراز کرنا لازم ہے،تاہم اگر بیچتے وقت گاہک کو مذکورہ کیمیکل سے بنے ہوئے بلاکوں کےعیوب کے بارے میں پہلے سے معلوم  ہو یا بیچنے والا  وضاحت کردے کہ یہ بلاک کیمیکل کے بنے ہوئے ہیں  اورگاہک لینے پر رضامند ہو  تو اس صورت میں بلاکوں  میں مذکورہ کیمیکل کا استعمال کرنااور  بیچنا دونوں جائز  ہوگا،اورحاصل ہونے والی  کمائی بھی حلال ہوگی،اور اگر بیچتے وقت گاہک  کو  عیوب کا علم نہ ہو تو یہ دھوکا ہونے کی بنا پر جائز نہ ہوگا ،اور کمائی بھی حلال نہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يحل ‌كتمان العيب ‌في ‌مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام ."

وفیہ ایضاً:

" (قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان ."

( کتاب البیوع، باب خیار العیب، مطلب في البيع بشرط البراءة من كل عيب، 47/5، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں