بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیلزمین کا مقررہ قیمت سے زیادہ رقم لینے کا حکم


سوال

میں سیلزمین تھا، کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ سیلزمین گاهک سے دو یاتین روپے زیادہ ليتا تھا،  مثلًا77 روپے بن رہے ہیں اور میں  نے 80 روپے لے  لیے ،  اس 3  روپے کا گاہک کو علم نہیں ہوتا ہے، یعنی  اس  کی  مرضی  کے بغیر یہ  رقم  لی  جاتی  تھی، اب یہ  مجھے معلوم نہیں کہ کیا ایسا میں نے کیا بھی  ہے یا نہیں، اگر بالفرض میں نے ایسا کیا ہو اور مجھے اس پیسوں  کا حق  دار معلوم نہ ہو تو پھر تلافی کی کیا صورت ہوگی؟

واضح رہے کہ مجھے مقدار بھی معلوم نہیں کہ کتنے ہے؟ اور نہ مجھے کوئی متعین آدمی معلوم ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ سیلز مین دکاندار کا وکیل ہوتا ہے، جتنی قیمت پر مالک نے اسے مال بیچنے کا کہا ہوتا ہے اتنی ہی قیمت پر اس کے لیے مال بیچنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کو یہ یقین یا غالب گمان ہو کہ اس نے  مالک کی مقرر کردہ قیمت سے زیادہ میں کوئی چیز بیچی  ہے تو اسے وہ زائد رقم ان رقوم کے  مالکوں تک پہنچانا ضروری ہے، لیکن اگر سائل کو  اس زائد رقوم کے مالکان  معلوم نہ ہو تو ان کی طرف سے وہ  رقم صدقہ کردی جائے، نیز اگر  سائل کو حاصل کردہ زائد رقم کی مقدار بھی  معلوم نہ ہو تو اندازہ لگاکر اس کی مقدار متعین کرے اور وہی مقدار ان مالکوں کی طرف سے صدقہ کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه،  ج:5، ص:99، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں