بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیل ٹارگٹ پورا کرنے پر اضافی ڈسکاؤنٹ دینا


سوال

 ہم فیکٹری سے سینیٹری کا سامان دکان داروں کو سیل کرتے ہیں اور دکان داروں کو سیل ٹارگٹ دیتے ہیں اور ٹارگٹ پورا کرنے پر سال کے آخر میں اضافی ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں جو کہ زیادہ ٹارگٹ والے کو زیادہ ڈسکاؤنٹ ہوتا ہے اور کم ٹارگٹ والے کو کم ڈسکاؤنٹ ہوتا ہے ،اور جو ٹارگٹ پورا نہ کرے اُس کو کوئی اضافی ڈسکاؤنٹ نہیں دیا جاتا ، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

 سیل ٹارگٹ پورا کرنے پر دکاندروں کو فیکٹری کی طرف سے جو  اضافی  ڈسکاؤنٹ دی جاتی ہے یہ انعام وتبرع کے قبیل سے ہے، اس لئے جو دکاندار ٹارگٹ پورا کرے اس کو اضافی ڈسکاؤنٹ دینا جائز ہے، اور ٹارگٹ حاصل کرنے  کے حساب سے ڈسکاؤنٹ میں کمی بیشی کرنا بھی جائز ہے۔ اور جو ٹارگٹ حاصل نہ کرسکے اس کو اضافی  ڈسکاؤنٹ نہ دینا بھی جائز ہے۔ 

فقہ البیوع میں ہے:

"الثالث: ماجری بہ عمل بعض التجار أنهم یعطون جوائز لعملائهم الذین اشتروا منهم کمّیّۃ مخصوصۃ، ولو في صفقات مختلفۃ، وقد تعطى هذہ الجوائز بقدر الکمّیّۃ لکل أحد، وقد تعطی الجوائز بالقرعۃ، ولیس هذا من قبیل الزیادۃ في المبیع ؛ لأنها تعطی عادۃ بعد صفقات متعددۃ في أزمنۃ وأمکنۃ مختلفۃ، فلاسبیل إلی نسبتها إلی مبیع واحد، فهي هبۃ مبتدأۃ موعودۃ من البائع لتشجیع الناس علی أن یشتروا البضائع منہ، وجواز أخذها مشروط بأن لایکون البائع زاد في ثمن البضعۃ من أجل هذہ الجوائز، وإلا صار نوعا من القمار؛ لأن مازاد علی ثمن المثل إنما طولب به علی سبیل الغرر، واحتمال أن یفوز المشتري بالجائزۃ".

(فقہ البیوع علی المذاهب الأربعۃ: المبحث الثامن: تقسیم البییع من حیث ترتب آثارہ، الباب الاول فی احکام البیع الصحیح بدون خیار، الجوائز علی المبیعات، 2/ 811، ط. مكتبة معارف القرآن كراتشي، سنة الطبعة: 1436ه = 2015م)

کشف الاسرار میں ہے:

"لأن التّبرُّع إنما صار مشروعًا في حقہٖ لکونہٖ وسیلۃ إلی التجارۃ في المستقبل".

(كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوي: باب الامور المعارضۃ علی الأهلیۃ، 4/ 421، ط. دارالکتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى 1418هـ=1997م)

البحر ارائق میں ہے:

"(والهبة والتصدق إلا باليسير ) لأنه نوع تبرع وهو ليس من أهله إلا أن اليسير منه من ضرورات التجارة".

(البحر الرائق: كتاب المكاتب،  باب ما يجوز للمكاتب أن يفعله، 8/ 54، ط. دار المعرفة ، بيروت)

شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"أما إذا وهب البائع بعض الثمن للمشتري بعد قبض الثمن وسلمه فالهبة صحيحة إلا أن الهبة على هذا الوجه تكون عقدا جديدا لا تعلق لها بعقد البيع ومثل هذه الهبة لا تلتحق بأصل العقد ولا يستفيد الشفيع من هذه الهبة (طحطاوي)".

 

(درر الحكام  شرح مجلة الأحكام: الكتاب الأول: البيوع، الفصل الثاني في بيان التزييد والتنزيل في الثمن والمبيع بعد العقد، المادة: 260، إذا حط البائع من ثمن المبيع مقدارا، 1/ 247، ط.  دار الجيل، الطبعة الأولى:1411هـ =1991م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200545

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں