بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صلح رحمی کس حد تک ہے؟


سوال

میرے بہت سارے رشتہ دار ہیں  ماں کی طرف سے یعنی اصول اور فروع پھر اصول کے فروع اور فروع کے اصول بھی اور باپ کی طرف سے بھی یعنی اصول اور فروع اور اصول کے فروع اور فروع کے اصول۔ اب جو صلح رحمی کا حکم ہے وہ ہمیں کس کس کے ساتھ کرنا چاہیے؟  کس حد تک صلح رحمی ہے اور کس کس کے بارے میں پوچھا جائے گا؟

جواب

صلہ رحمی کا مطلب ہے : رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا۔ یعنی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا،  اپنی ہمت کے بقدران کامالی تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا، ان کی ملاقات کے لیے جاتے رہنا، وغیرہ۔  خلاصہ  یہ کہ  ان کےساتھ بہترتعلقات قائم رکھنااوران کی ہم دردی وخیرخواہی کےجذبات سے سرشار رہنا ۔

اس میں”اصول“ (جیسےوالدہ اور والدہ کے آگے والدین،اسی طرح والد اور والد کےآگےوالدین )اور”فروع“ (جیسے بیٹی اور بیٹی کی آگے اولاد ،نیز بیٹے او ربیٹےکی آگے اولاد)کےساتھ ساتھ قریب وبعید کےباقی تمام رشتہ دار بھی داخل ہیں۔ البتہ جو زیادہ اقرب ہے اُس کا حق مقدم ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

"الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (20) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (21) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (22) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ "(24)[الرعد:20-24]

ترجمہ:" وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا  ،اور نماز قائم کی ، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ "سلام ہو تم پر" بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔"

حدیث مبارک میں ہے:

" عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاث من كن فيه حاسبه الله حسابا يسيرا وأدخله الجنة برحمته. قالوا: لمن يا رسول الله؟ قال: تعطي من حرمك، وتعفو عمن ظلمك، وتصل من قطعك. قال: فإذا فعلتُ ذلك، فما لي يا رسول الله؟ قال: «أن تحاسب حسابا يسيرا ويدخلك الله الجنة برحمته.

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : كتاب التفسير ، (2/ 562) دار الكتب العلمية بيروت)

ترجمہ: "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔"

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں