بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صلہ رحمی کا شریعت میں مقام


سوال

ددیہال والوں سے ہمارا تعلق بچپن سے مختصر رہا ہے ، ہم کال پر بات نہیں کرتے،  البتہ جب ممکن ہوتا ہے،  ملاقات اور عیادت وغیرہ کر لیتے ہیں ،  کال پر بات نہ کرنا کسی دشمنی یا لڑائی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ بے تکلفی نہ ہونے کی وجہ سے تھا ، اب حال میں ان کی اور میرے والدین کی آپس میں رنجش ہو گئی ہے ،اب رابطہ اس سے بھی کم ہوا ہے تو برائے کرم ہمارے راہ نمائی کے لیے صلہ رحمی کے بارے میں کچھ   فرمائیں   ؟

جواب

واضح رہے صلہ رحمی کا مطلب ہے رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا، یعنی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا،  اپنی ہمت کے بقدران کامالی تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا، ان کی ملاقات کے لیے جاتے رہنا، وغیرہ۔  خلاصہ  یہ کہ  ان کےساتھ بہترتعلقات قائم رکھنااوران کی ہم دردی وخیرخواہی کےجذبات سے سرشار رہنا ، اس میں”اصول“ (جیسےوالدہ اور والدہ کے آگے والدین،اسی طرح والد اور والد کےآگےوالدین )اور”فروع“ (جیسے بیٹی اور بیٹی کی آگے اولاد ،نیز بیٹے او ربیٹےکی آگے اولاد)کےساتھ ساتھ قریب وبعید کےباقی تمام رشتہ دار بھی داخل ہیں، البتہ جو زیادہ اقرب ہے اُس کا حق مقدم ہے۔

صورتِ مسئولہ میں ددیہال  کا  رشتہ باقی رشتہ داروں کے مقابلے میں انتہاء درجے کی  قریبی رشتہ داری ہے، کیوں کہ ددیہال والد کے لیے والدین،بہن،  بھائی ، سائلہ اور ان کے بہن بھائیوں کے دادا ،دادی، چچا پھوپھی اور سائلہ کے والدہ کے لیے سسرال  ہے،اسی بنیاد پر ان کے ساتھ  صلہ رحمی کی تاکید زیادہ ہے،اور ان لوگوں سے قطعی تعلق کرنا حرام اور ناجائز ہے ۔

صلہ رحمی اس طریقے سے ہو گی جو لوگوں کے ہاں متداول اور معروف ہو؛ کیونکہ کتاب و سنت میں صلہ رحمی کی نوعیت، صنف اور مقدار کا تعین نہیں کیا گیا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صلہ رحمی کو کسی معین چیز کے ساتھ مقید نہیں کیا ، بلکہ اسے مطلق رکھا ہے؛ اس لیے صلہ رحمی کے لیے عرف کو دیکھا جائے گا کہ جو چیز عرف میں صلہ رحمی ہے وہ صلہ رحمی کہلائے گی، اور جس چیز کو عرف میں قطع رحمی کہا جائے وہ قطع رحمی ہو گی۔

 قرآن  کریم میں ہے:

"{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا  وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}."(سورۃ الإسراء: 23،24)

ترجمہ :"اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔"

(بیان القرآن، ج:2، ص: 374،  ط:رحمانیہ)

دوسری جگہ ارشاد  ہے:

ْفَاٰتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّـلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [الروم:35]

ترجمہ:․․․”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں“۔

تیسری آیت شریف میں ہے:

"وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ( الاحزاب: 6) "

ترجمہ: اور رشتہ دار کتاب الله میں ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں (از بيان القرآن

چوتھی  آیت شریف میں ہے:

"الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (20) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (21) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (22) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (24)[الرعد: 20-24]

ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا  ،اور نماز قائم کی ، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ "سلام ہو تم پر" بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔

صحیح للبخاری میں ہے:

"وعن أنس: سُئِلَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم عن الكبائر فقال: الإشراك باللَّه، وعقوق الوالدين،وقتل النفس، وشهادة الزور".

(كتاب الشهادات۔ ج:2، ص:374، ط: دار النوادر)

ترجمہ :" حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبائر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا اور والدین کی نافرمانی کرنا کسی آدمی کا قتل کرنا جھوٹی گواہی دینا ۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا. ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه."

(باب البر والصلة،الفصل الثالث، ج:3، ص:1382، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء إلا عقوق الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات."

(باب البروالصلة،الفصل الثالث، ج:3، ص:1383، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ : "رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے"۔

"المستدرک علی الصحیحین للحاکم" میں ہے:

"عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث من كن فيه حاسبه الله حسابا يسيرا وأدخله الجنة برحمته» قالوا: لمن يا رسول الله؟ قال: «تعطي من حرمك، وتعفو عمن ظلمك، وتصل من قطعك» قال: فإذا فعلت ذلك، فما لي يا رسول الله؟ قال: «أن تحاسب حسابا يسيرا ويدخلك الله الجنة برحمته» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه".

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ج:2،  ص: 563، رقم الحدیث: :3912، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔

نبی اکرم ﷺکا  اِرشاد مبارك  ہے :

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الرحم معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله اللہ ومن قطعني قطعه اللہ."

(باب صلةالرحم، وتحريم قطيعتھا من کتاب البر والصلة والآداب، ج:1، ش:1981، ، ط: دار إحياء الکتب العربية)

ترجمه:" میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑکر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)"۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”خلق الله الخلق، فلما فرغ منه قامت الرحم، فأخذت بحقوي الرحمان، فقال: مه؟ قالت: هذا مقام العائذ بک من القطیعة، قال: ألا ترضین أن أصل من وصلک، وأقطع من قطعک؟ قالت:بلیٰ یا رب! قال فذاک. متفق علیه."

(مشكاة المصابيح، ج:3، ص:1377، ، المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی، جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا، پروردگار نے فرمایا: کہہ کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا:یہ قطع رحمی کے خوف سے تیری پناہ کے طلب گار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے رو برو کھڑا ہوں اور تیرے دامنِ عزت وعظمت کی طرف دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہوں، تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتاہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے)پروردگار نے فرمایا: کیا تو اس پر راضی نہیں ہے جو شخص (رشتہ داری اور عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعہ قائم وبرقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کردے، میں بھی (اپنے احسان وانعام) کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ: پروردگار! بے شک میں اس پر راضی ہوں، پرووردگار نے فرمایا: اچھا تو وعدہ تیرے لیے  ثابت وبرقرار ہے“۔

اسی طرح حدیث شریف صلح رحمی کو اللہ سے قرب کا ذریعہ اور قطع رحمی کو اللہ سے دوری کا ذریعہ قرار دیا گیاہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:

"وعن عبد الرحمن بن عوف قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قال الله تبارك وتعالي: ‌أنا ‌الله وأنا الرحمن خلقت الرحم وشققت لها من اسمي فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته ". رواه أبو داود".

(مشكاة المصابيح، كتاب الآداب، باب البر والصلة،ج:2، ص: 433، ط:رحمانيه)

ترجمہ:․․․”حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں ، میں رحمان ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتاکے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔

ايك  حدیث میں صلح رحمی كو فراخی رزق كا سبب كا قرار ديا گياہے، چنانچہ ارشادِ گرامی ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحب أن يبسط له في رزقه وينسأ له في أثره ‌فليصل ‌رحمه» . متفق عليه".

(مشكاة المصابیح، كتاب الآداب، باب البر والصلة،ج:2، ص: 433، ط:رحمانيه) 

ايك  اور حدیث میں قطع رحمی کو دنیا وآخرت کے خسارہ کا سبب قرار دیا گیاہے، چنانچہ آپ صلی اللہ کا ارشاد ہے:

"وعن أبي بكرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من ذنب أحرى أن يعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنيا مع مايدخر له في الآخرة من ‌البغي وقطيعة الرحم» . رواه الترمذي وأبو داود".

(مشكاة المصابیح، كتاب الآداب، باب البر والصلة،ج:2، ص: 433، ط:رحمانيه)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:

"عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول الله ﷺ لایدخل الجنة قاطع". متفق علیه."

(باب البر والصلة، ج:3، ص:376،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:”حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا“۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح میں ہے:

"(وعن جبير بن مطعم) : مر ذكره (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يدخل الجنة قاطع» ) أي: للرحم أو للطريق."

(باب البر والصلة، ج:9، ص:142، ط:مكتبه حنيفيه)

وفيه أيضا:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرضهذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

...قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(کتاب الاداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،ج:8، ص:3146،  ط: دارالفکر)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة السادسة: العادة محكمة

وأصلها قوله عليه الصلاة والسلام {ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن} قال العلائي: لم أجده مرفوعا في شيء من كتب الحديث أصلا، ولا بسند ضعيف بعد طول البحث، وكثرة الكشف والسؤال، وإنما هو من قول عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه مرفوعا عليه أخرجه أحمد في مسنده...واعلم أن اعتبار العادة والعرف يرجع إليه في الفقه في مسائل كثيرة حتى جعلوا ذلك أصلا."

(الفن الأول، القاعدۃ السادسة، ص: 79، ط: دار الكتب العلمية)

خطبات حکیم الامت میں ہے:

"ادب کا مدار عرف پر ہے، فقہاء نے اس کو خوب سمجھا ہے لا تقل لھما اف کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ حقیقت میں اس نہی کا ایذاء والدین سے منع کرنا ہے ، جہاں تافیف موجب ایذاء ہو وہاں حرام ہے اور اگر کسی وقت عرف بدل جائے اور تافیف موجب ایذاء نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔"

(خطبات  حکیم الامت، ج:9،ص:302،ط،ادارہ تالیفات اشرفیہ)

مزید تشفی قلب کے لیے مندرجہ زیل لنک ملاحظہ کیجئے:

صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے ثمرات

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں