بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صلہ رحمی


سوال

شریعت میں رشتہ داروں کے ساتھ جو صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے اس میں کون کون سے رشتے دار اس صلہ رحمی میں شامل ہیں اور کون سے نہیں ؟ یعنی کن رشتےداروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی ضروری ہے اور کن کے ساتھ نہیں ؟ صلہ رحمی کی حدود کیا ہیں ؟

جواب

 واضح رہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کی بہت تاکیدآئی ہے ،لہذا  صلہ رحمی تما م رشتہ داروں سے کرنی ہے ،البتہ قرب و بعد کے اعتبار سے کم اور زیادہ کا فرق رکھا جاسکتا ہے،یعنی رشتہ داروں سے تعلق جوڑنے اور  ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے میں  انسان کے ”اصول“ (جیسےوالدہ اور والدہ کے آگے والدین،اسی طرح والد اور والد کےآگےوالدین )اور”فروع“ (جیسے بیٹی اور بیٹی کی آگے اولاد ،نیز بیٹے او ربیٹےکی آگے اولاد)کےساتھ ساتھ قریب اور بعید کےباقی تمام رشتہ دار بھی داخل ہیں، جیسے بہن بھائی اور ان کی اولاد، والدین کے بہن بھائی اور ان کی اولاد وغیرہ۔ البتہ جو  جتنا زیادہ اقرب ہے اُس کا حق  اتنا ہی ذیادہ اور مقدم ہے۔

نیز  حدیث شریف میں تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے بات چیت ختم رکھنے  کی ممانعت آئی ہے،لہذا  اگر کبھی کسی سے کوئی رنجش ہوجائے اور بات چیت بند ہوجائے تو تین دن ختم ہونے سے پہلے پہلے اس سے سلام ،دعا اور خیرخیریت دریافت کرلینی چاہئے ۔

البتہ اگر کوئی رشتہ دار  شخص اعلانیہ فسق و فجور یا بدعات وغیرہ میں مبتلا ہو اور اس سے  اس نیت   کے ساتھ قطع تعلقی کی جائے کہ وہ  اس گناہ کو چھوڑ دےگا،یا  کسی رشتہ دار سے تعلق رکھنے میں دین یا دنیا کے نقصان کا اندیشہ ہو  تو ان صورتوں دین کی خاطر قطع تعلقی کرنے کی اجازت ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث من كن فيه حاسبه الله حسابا يسيرا وأدخله الجنة برحمته» قالوا: لمن يا رسول الله؟ قال: «تعطي من حرمك، وتعفو عمن ظلمك، وتصل من قطعك» قال: فإذا فعلت ذلك، فما لي يا رسول الله؟ قال: «أن تحاسب حسابا يسيرا ويدخلك الله الجنة برحمته» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه".

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ج: صفحہ: 563، رقم الحدیث: :3912، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔"

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرضهذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

...قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(8/ 3146،  کتاب الاداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الاول، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں