بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدےمیں دعا کرنے کاحکم


سوال

سنن نسائی حدیث نمبر 1138 میں نبی کریم صلی الله عليه وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے لہذا تم لوگ سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو ، اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ کیا فرض نماز کیلئے بھی ہے یا صرف نفل نماز کیلئے ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اس طرح کی احادیث دیگر احادیث کی کتابوں میں بھی ہیں کہ   انسان سجدے میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب  ہوتا ہے اور اس حالت میں دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہے، اس  میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں   سجدے میں دعا کرنا  تہجد اور دیگر نوافل کے سجدے سےمتعلق ہے   فرض نما زکے سجدے میں سجدے کی تسبیحات  ہی  پڑھنی چاہییں۔ البتہ  امام کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے مقتدی کو موقع ملتا ہو تو مسنون دعائیں  پڑھ سکتا ہے، نیز  عربی زبان میں ایسی دعا بھی کرسکتا ہے جن چیزوں کا مخلوق سے سوال نہیں کیا جاسکتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  میں ہے :

"وكذا لايأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح (على المذهب)، وما ورد محمول على النفل. (قوله: وما ورد إلخ) فمن الوارد في الركوع والسجود ما في صحيح مسلم: «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا ركع قال: اللّٰهم لك ركعت، وبك آمنت، ولك أسلمت، خشع لك سمعي وبصري ومخي وعظمي وعصبي، وإذا سجد قال: اللّٰهم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت، سجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره، تبارك الله أحسن الخالقين». والوارد في الرفع من الركوع أنه كان يزيد: «ملء السماوات والأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد، وكلنا لك عبد لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت، ولاينفع ذا الجد منك الجد». رواه مسلم وأبو داود وغيرهما. وبين السجدتين: «اللّٰهم اغفر لي وارحمني وعافني واهدني وارزقني». رواه أبو داود، وحسنه النووي وصححه الحاكم، كذا في الحلية (قوله: محمول على النفل) أي تهجداً أو غيره، خزائن. وكتب في هامشه: فيه رد على الزيلعي حيث خصه بالتهجد. اهـ. ثم الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع والسجود، وصرح به في الحلية في الوارد في القومة والجلسة".

 (کتاب الصلوۃ ،1/ 505،سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"اس طرح کا سجدہ سجدہ مناجات کہلاتا ہے اس کی بارے میں بعض علماءِ دین کا قول ہے کہ مکروہ ہے ۔ مشکاۃ شریف کی شرح اشعۃ اللمعات میں ہے ۔ سوم سجدہ مناجات بعد از نماز وظاہرکلام اکثر علماء آنست کہ مکروہ است (اشعۃ للمعات ج ۱ص ۶۲۰) (شرح سفر السعادۃ۔ ص ۱۵۹) لہذا اس کی عادت بنا لینا غلط ہے ۔ دعا اورمناجات کا مسنون طریقہ جس کی مسنونیت میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے اس کو ترک کر کے اختلافی طریقہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے ۔ سجدہ میں دعا کرنے کی جو روایت ہے ۔ اس کے متعلق شرح سفر السعادۃ میں ہے وآنکہ در آحادیث آمدہ است کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در سجدہ اطالت میفر مودود عابسیار میکرد مراد بدں سجدہ‘ صلاتیہ است (ص ۱۵۹) یعنی حدیثوں میں جو وارد ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ طویل فرماتے اور بہت دعا کیا کرتے تھے۔ اس سے مراد وہی سجدہ ہے جو نفل نماز میں کیا کرتے تھے ۔ پس تہجد کے سجدہ میں وہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں جو احادیث میں وار د ہوئی ہیں. فقط و ﷲ اعلم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں