بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سہوساقط ہونے کے مواقع


سوال

 کیا پنج وقتہ نماز میں بھی سہو ساقط ہو جاتا ہے، جب کہ مجمع زیادہ ہو جیسا کہ جمعہ اور عیدین میں سہو ساقط ہو جاتا ہے مجمع کے انتشار  کے خطرہ  کی وجہ سے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مندرجہ ذیل مواقع پرپنچ وقتہ نمازوں میں بھی سجدہ    سہو   ساقط   ہوجاتا ہے: 

(1) وقت کا تنگ ہونایعنی  فجر کی نماز میں اگر سجدہ سہو واجب ہوا اور پہلا سلام پھیرتے ہی وقت نکل گیا تو سجدۂ سہو ساقط ہوجائے گا اور نماز کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔ 

(2)  وقت مکروہ ہونایعنی  کسی شخص پر عصر کی نماز میں سجدہ ٔ سہو واجب ہوا اور سجدہ کرنے سے پہلے ہی سورج متغیر ہوگیا تو سجدۂ سہو ساقط ہوجائے گا اور نماز کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا ؛ کیوں کہ طلوع آفتاب، نصف النہاراور غروب آفتاب کے وقت سجدہ کرنا اور سجدہ والی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،پس ان اوقات میں سجدہ ٔ سہو کرنا بھی مکروہِ تحریمی ہے۔ 

(3)  جو چیز نماز کو توڑنے والی اور بنا میں  مانع ہے مثلاً  عمداً  حدث کرنا یا کلام کرنا وغیرہ، اگر سلام کے بعد یہ  چیز پائی گئی تو اس سے سجدۂ سہو ساقط ہوجاتاہے ، پس اگر سجدۂ سہو کا ساقط ہونا نمازی کے اپنے فعل سے واقع ہوا ہے تو   اعادہ  واجب ہے، ورنہ نہیں۔ 

(5)اسی طرح لوگوں کا رش زیادہ ہےاور  امام   سجدہ سہو کرتا ہے تو  مقتدیوں میں تشویش غالب ہو گی تو اس صورت میں بھی سجدہ سہو نہ کرے ۔

(4) اگر فرض نماز میں کسی پر سجدۂ سہو واجب ہوا اور سلام سے قبل اس نے عمداً نفل کی بنا کرلی تو  سجدۂ  سہو ساقط ہوجاتا ہے تا ہم ان فرضوں کا لوٹانا واجب ہوگا۔ 

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے :

"و يسقط سجود السهو بطلوع الشمس بعد السلام في" صلاة "الفجر" و بخروج وقت الجمعة و العيد لفوات شرط الصحة "و" كذا يسقط لو سلم قبيل "احمرارها" أي تضير الشمس "في العصر" تحرزًا عن المكروه "و" يسقط "بوجود ما يمنع البناء بعد السلام" كحدث عمد وعمل مناف لفوات الشرط."

(كتاب الصلاة، باب سجود السهو،463 ،دارالكتب العلمية بيروت)

وفيه ايضا:

"‌قوله: بكثرة ‌الجماعة الباء للسببية وهي متعلقة بقوله للفتنة وأخذ العلامة الواني1 من هذه السببية أن عدم السجود مقيد بما إذا حضر جمع كثير أما إذا لم يحضروا فالظاهر السجود لعدم الداعي إلى الترك وهو التشويش."

(كتاب الصلوة،باب سجدة السهو،466،دار الكتب العلمية)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144404101288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں