بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کی طرف سے امدادی رقم لینے کا حکم / صحت کارڈ سے علاج کرانے کا حکم


سوال

1- آج کل حکومت پاکستان نے لوگوں کو 2,000 روپے دینے کا اعلان کیا ہے آیا یہ رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟

2-  صحت کارڈ کے ذریعے علاج کروانا درست ہے یا نہیں ؟

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں حکومتِ پاکستان نے لوگوں کو  2,000  روپے  دینے کا اعلان کیا ہے، اس رقم کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر یہ رقم زکوٰۃ اور صدقہ واجبہ میں سے نہیں ہے، تو مال دار اور غریب دونوں کے لیے یہ رقم لینا جائز ہے، اور اگر یہ رقم زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ میں سے ہے، تو صرف مستحقِ زکوٰۃ غریبوں کو لینے کی اجازت ہوگی، مال داروں کو لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔

2-ہماری معلومات کے مطابق صحت کارڈ (صحت انصاف کارڈ) جاری کرنے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ حکومت عوام کی طرف سے انشورنس کمپنی میں مخصوص رقم جمع کرتی ہے، جس پر انشورنس کمپنی اضافی رقم دیتی ہے، حاملِ کارڈ کا حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوتا ہے نہ انشورنس کمپنی کے ساتھ، اور نہ ہی اس کی طرف سے کوئی فیس ادا کی جاتی ہے،  یہ کارڈ حکومت کی طرف سے ان افراد کو فراہم کیا جاتا ہے جو حکومت کے مقرر کردہ ایک خاص معیار کے مطابق اس کارڈ  کے مستحق ٹھہرتے ہوں، اس کارڈ میں دونوں طرح کی رقم (عوام کی طرف سے انشورنس کمپنی میں حکومت کی جمع کی ہوئی رقم اور وہ رقم جو انشورنس کمپنی اس پر اضافی دیتی ہے) ہوتی ہے۔

لہذا اس کارڈ میں جتنی رقم حاملِ کارڈ کی طرف سے حکومت نے انشورنس کمپنی میں جمع کی ہے اسی رقم کے  بقدر اس کارڈ سے وہ شخص  علاج کرا سکتا ہے جو حکومت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق اس کارڈ کا مستحق قرار پاتا ہو، اس پر  اضافی رقم جو انشورنس کمپنی کی طرف سے ملتی ہے  اس سے سودی رقم ہونے کی بنا پر علاج کرانا جائز نہیں ہے، حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم کے بقدر علاج کرانا اس لیے جائز ہے کیوں کہ انشورنس کمپنی کے ساتھ ہونے والے سودی معاملے میں حاملِ کارڈ براہِ راست ملوث نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني...وكما لا يجوز صرف الزكاة إلى الغني لا يجوز ‌صرف ‌جميع ‌الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر لعموم قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي - صلى الله عليه وسلم - «لا تحل الصدقة لغني» ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني.

وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة."

(کتاب الزکوٰۃ، فصل شرائط رکن الزکوٰۃ، فصل الذی یرجع الی المؤدی الیہ، ج:2، ص:47، ط:دار الکتب العلمیہ)

درر الحکام میں ہے:

"والهبة باصطلاح الفقهاء هي تمليك مال لآخر بلا عوض."

(الکتاب السابع الہبہ، المقدمہ، ج:2، ص:389، ط:دار الجیل)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وحاصله: أن اللفظ إن أنبأ عن تملك الرقبة فهبة."

(کتاب الہبہ، ج:5، ص:689، ط:سعید)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"حق التملك: هو مجرد الإمكان والصلاحية للملك شرعا.

فحق التملك حق ليس له محل معين - ولو في الجملة - يتعلق به، وذلك لعدم وجود سبب من أسباب الملك بمحل معين يوجبه ويثبته فيه.

الحق الثابت - ويسمى الحق الواجب عند بعض الفقهاء -: هو حق الشخص في أن يتملك شيئا محددا - ولو في الجملة - بإرادته وحده، بعد وجود سبب من أسباب الملك، وقبل ثبوت الملك.

وهذا الحق...أعلى درجة  من حق التملك، حيث إن الحق الثابت يعطي حقوقا أكثر من حق التملك، وله آثار أقوى، لأن صاحب حق التملك إذا تحقق له سبب من أسباب الملك كالإيجاب ترقى حقه إلى حق ثابت، ويمكن لصاحب الحق الثابت - بإرادته وحده - أن يترقى بهذا الحق الثابت إلى حق الملك، لأنه أصبح بالخيار بين قبول الإيجاب ...  فيصبح مالكا، أو رفض الإيجاب، وهذا الأمر لا يتوفر لصاحب حق التملك، وهو أهم فرق بين هذين الحقين."

(مادہ:حق، حق التملک والحق الثابت، ج:18، ص:41/42، ط:دار السلاسل)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن جابر - رضي الله عنه - قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء) » رواه مسلم.

(عن جابر قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - آكل الربا» ) ، أي: آخذه وإن لم يأكل، وإنما خص بالأكل لأنه أعظم أنواع الانتفاع كما قال - تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما} [النساء: 10] (ومؤكله) : بهمزة ويبدل أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه نظرا إلى أن الأكل هو الأغلب أو الأعظم كما تقدم، قال الخطابي: سوى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بين آكل الربا وموكله، إذ كل لا يتوصل إلى أكله إلا بمعاونته ومشاركته إياه، فهما شريكان في الإثم...(وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل."

(کتاب البیوع، باب الربا، الفصل الاول، ج:5، ص:1915، ط:دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں