بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سگریٹ کا حکم


سوال

سگریٹ کے متعلق بتائیں  کہ اس کا پینا حلال ہے یا حرام؟

جواب

سگریٹ پینا فی نفسہ مباح ہے، تاہم کھانے پینے کی طرح مباح نہیں ہے، بلکہ غیر صلحاء کا معمول اور منہ میں بدبو کا باعث ہے، اس لیے بعض فقہاء نے اسے مکروہ (تنزیہی) کہاہے، اگر اس کی وجہ سے منہ میں بدبو ہو تو اس حالت میں مسجد میں داخل ہونا مکروہِ تحریمی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول سمته اهـ.

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.

 (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، کتاب الأشربة، (رد المحتار)(6/ 460)

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 459):

"قلت: وألف في حله أيضاً سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي".

(کتاب الأشربة،ط:سعید)

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’سوال: حقہ پینا، تمباکو کا کھانا یا سونگھنا کیسا ہے؟ حرام ہے یا مکروہ تحریمہ یا مکروہ تنزیہہ ہے؟ اور تمباکو فروش اور نیچے بند کے گھر کا کھانا کیسا ہے؟

جواب: حقہ پینا، تمباکو کھانا مکروہِ تنزیہی ہے اگر بو آوے، ورنہ کچھ حرج نہیں اور تمباکو فروش کا مال حلال ہے، ضیافت بھی اس کے گھر کھانا درست ہے‘‘۔

( کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص: 552، ط: ادراہ صدائے دیوبند) 

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’مگر تمباکو نوشی سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے؛ لہذا صحیح ضرورت کے بغیر حقہ نوشی وغیرہ کراہیت سے خالی نہیں، تمباکو بنفسہ مباح ہے، اس میں کراہیت بدبو کی بنا پر عارضی ہے کراہت تحریمی ہو یا تنزیہی۔ بہر حال قابلِ ترک ہے، اس کی عادت نہ ہونی چاہیے۔ اس کی کثرت اسراف اور موجبِ گناہ ہے۔ جو لوگ ہر وقت کے عادی ہیں ان کا منہ ہمیشہ بدبو دار رہتا ہے جس سے آں حضرتﷺ کو بہت زیادہ نفرت تھی.

حدیث میں ہے :

"عن أبي سعید الخدري أن رسول ﷲ صلی ﷲ علیه وسلم مرّ علی زراعة بصل هو و أصحابه فنزل ناس منهم فأکلوا منه ولم یأ کل آخرون، فرحنا إلیه فدعا الذین لم یأکلوا البصل و أخر الآخرون حتی یذهب ریحھا".

یعنی حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کرام پیاز کے کھیت کے قریب سے گزرے، بعض صحابہ وہاں ٹھہر گئے، ان میں سے بعض نے اس میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا، پھر سب بارگاہ نبوی میں پہنچے تو آنحضرتﷺ نے پیاز نہ کھانے والوں کو قریب بلایا اور پیاز کھانے والوں کو بد بوزائل ہونے تک پیچھے بٹھایا۔

(صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۹باب نہی عن اکل سوم اوبصل الخ )

شریعت میں منہ کی صفائی کے متعلق نہایت تاکید اور فضیلت وارد ہے ۔

آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے۔

"السواك مطھرة للفم ومرضاۃ للرب" یعنی  مسواک منہ کی پاکی کا ذریعہ ہے اور رب ذوالجلال کی خوشنودی کا سبب۔

(مشکوٰۃ شریف ص ۴۴ باب السواک)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ جب باہر سے تشریف لاتے تو اولاً مسواک کرتے تھے۔

 (مسلم شریف ج۱ ص ۱۲۸)

اکثر تمباکو نوش حضرات منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے، جب دیکھیں منہ میں بیڑی، سگریٹ ہوتی ہے، مسجد کے دروازہ تک پیتے چلے جاتے ہیں، بقیہ حصہ کو پھینک کر مسجد میں داخل ہوتے ہیں، شاید کوئی مسواک کرتا ہوگا یا منجن استعمال کرتا ہوگا۔ محض کلی پر اکتفا کر کے نماز شروع کر دیتے ۔ کہیں ایسوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی نوبت آجاتی ہے نماز پڑھنی دشوار ہوجاتی ہے، آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی اس بدبودار درخت (پیاز یا اس کی آل) کو کھائے وہ (منہ صاف کیے) بغیر  ہماری مسجد کے قریب نہ آئے؛ کہ جس چیز سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہے فرشتوں کو بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے۔

(مسلم شریف ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً)

فقہاءِ کرام تحریر فرماتے ہیں کہ بدبو دار چیز کھانے، پینے کے بعد منہ صاف کیے بغیر مسجد و مدرسۂ عید گاہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ اور مجلس تعلیم اور وعظ و تبلیغی اجتماعات میں شریک ہونا مکروہ ہے۔

(نووی شرح مسلم ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً)

مسلمانوں کا کون سا وقت ذکر اللہ اور ذکر رسول اللہ ﷺ سے خالی رہتا ہے ۔ قدم قدم پر بسم اللہ الخ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ درود ودعا،سبحان اللہ، الحمد اللہ، اللہ اکبر، ماشاء اللہ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ، استغفر اللہ، انا للہ الخ مصافحہ کے وقت یغفر اللہ، چھینک پر الحمد اللہ یر حمکم اللہ، یہدیکم اللہ وغیرہ وغیرہ ورد زبان رہتا ہے، لہذا حتی الوسع منہ کی صفائی ضروری ہے، خدائے پاک کے ہزارہا احسانات اور فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے رسول اللہ ﷺ کے مقدس و مبارک نام لینے کی ہمیں اجازت دی ہے ۔ ورنہ چہ نسبت خاک را بعالمِ پاک‘‘۔

(فتاوی رحیمیہ 10/212)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں