بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سگریٹ پینے کا حکم


سوال

کیا اسلام میں سگریٹ پینا جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سگریٹ کا استعمال عام حالات میں مکروہِ تنزیہی ہے، شرعاََنہ توحرام ہے اور نہ ہی بالکل مباح، ایسا مباح بھی نہیں جیسے کھانا پینا،  اور ایسا حرام بھی نہیں جیسے شراب وغیرہ۔  البتہ سگریٹ منہ میں بدبو کا باعث ہونے مضر صحت ہونے  کی وجہ سے ناپسندیدہ ہے، لہٰذا سگریٹ استعمال کرنے کے بعد  منہ صاف کرکے بدبو زائل کرکے نماز وتلاوت کرناچاہیے،یہ بھی واضح رہے کہ سگریٹ وغیرہ کی بدبو کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا مکروہِ تحریمی ہے۔

فتاوي رشيدية میں ہے:

’’سوال: حقہ پینا، تمباکو کا کھانا یا سونگھنا کیسا ہے؟ حرام ہے یا مکروہ تحریمہ یا مکروہ تنزیہہ ہے؟ اور تمباکو فروش اور نیچے بند کے گھر کا کھانا کیسا ہے؟

جواب: حقہ پینا، تمباکو کھانا مکروہِ تنزیہی ہے اگر بو آوے، ورنہ کچھ حرج نہیں اور تمباکو فروش کا مال حلال ہے، ضیافت بھی اس کے گھر کھانا درست ہے‘‘۔

( کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص: 552، ط: ادراہ صدائے دیوبند) 

 امدادالفتاوي میں ہے:

"تمباکوکھانے کاحکم۔

الجواب:بلاضرورت کراہت توسمجھتا ہوں،اور بضرورت کھانا پینادونوں جائز ہیں ،اور ضرورت میں نفس اکل مکروہ نہیں،دوسرے عوارض خارجیہ سے گو کراہت ہوجائے اور عوارض کی خفت وشدت سے کراہت کی شدت وخفت میں تفاور ہوگا ،اور سکر تمباکومیں نہیں ہے صرف حدت ہے اسی سے پریشانی ہوتی ہے لیکن عقل مؤوف نہیں ہوتی ،اور ان عوارض خارجیہ ہی کے اعتبار سے کھانا اخف ہے بہ نسبت پینے کے کماہومشاہد"

(کھانے پینے کی حلال وحرام مکروہ ومباح چیزوں کا بیان،4/ 116)ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی

ردالمحتارمیں ہے:

"قلت: وألف في حله أيضاً سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان وأقام الطامة الكبري علي القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل علي ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي."

وفیه ایضا:

"وفي الاشباہ في قاعدۃ:الاصل الاباحة او التوقف،ویظھراثرہ فیمااشکل حاله کالحیوان المشکل امرہ والنبات المجھول سمته.

(قولہ فیفھم منه حکم النبات) وهو الاباحة علي المختار او التوقف۔وفیه اشارۃ الی عدم تسلیم اسکارہ وتفتیرہ واضرارہ."

( کتاب الأشربة(6 /459-460) ط: سعید) 

موسوعةفقهيةمیں ہے:

"ذھب الي القول بکراھة شرب الدخان من الحنفیة : ابن عابدین،وابوالسعود،واللکنوي۔ومن المالکیة: الشیخ یوسف الصفتي۔ومن الشافعیة: الشرواني۔ومن الحنابلة: البھوتي،والرحیباني واحمد بن محمد المنقور التمیمي.

واستدلوا بمایاتي:

الف:کراھة رائحته،فیکرہ قیاسا علي البصل الني والثوم والکرات ونحوھا.

ب:عدم ثبوت ادلة التحریم ،فھي تورث الشک،ولایحرم شي بمجرد الشک، فیقتصرعلي الکراھة لمااوردہ القائلون بالحرمة."

(تبغ،الاحکام المتعلقۃ بالتبغ،10/ 20-22)ط:وزارۃالاوقاف الکویت)

فتاوي مهدية میں ہے:

"الحکم الشرعي في شرب الدخان الذی لایغیب العقل ولایضر بالجسم ولایترتب علیه فتورولامحظور شرعي ھو الاباحة بناء علي قول بان الاصل في الاشیاء التی لم یرد في شانھا نص شرعي ولاضرر في استعمالھا الاباحة وھو المرجح قال الطحطاوي ان تعاطیه حال القراءۃیکرہ لمافیه من الاخلال بتعظیم کلام اللہ تعالي."

(کتاب الحظر والاباحة۔ص:155)ط:دارالکتب العلمیة لبنان

صحیح مسلم میں ہے:

"من أكل ثومًا أو بصلًا فليعتزلنااولیعتزل مسجدنا وليقعد في بيته.وفی روایۃ :من اکل البصل والثوم والکراث فلا یقربن مسجدنا فإن الملائكة تتأذى مما يتاذى منه بنو آدم."

(کتاب المساجد، باب نهي من أكل ثومًا أو بصلًا...الخ (1/ 209)ط:قدیمي کتب خانه)

موسوعةفقهيةمیں ہے:

"کذلک لایجوز لشارب الدخان دخول المسجد حتي تزول الرائحة من فمه،قیاسا علي منع آکل الثوم والبصل من دخول المسجد حتي تزول الرائحة،واعتبر الفقھاءان وجود الرائحة ۔۔۔ ولایختص المنع بالمساجد،بل انه یشمل مجامع الصلاۃ غیر المساجد ،کمصلي العیدوالجنائز ونحوھامن مجامع العبادات،وکذا مجامع العلم والذکر ومجالس قراءۃ القرآن ونحوھا۔ھذا مع اختلاف الفقھاء في منع من في فمه رائحة الدخان من دخول المسجد،اومجامع العبادات،ومجالس القرآن،فحرمه الحنفیة والمالکیة، وکرھه الشافعیة والحنابلة.

(تبغ،الاحکام المتعلقۃ بالتبغ،10/  24-25)ط:وزارۃالاوقاف الکویت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں