بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کا اطلاق نسب کی وجہ سے کن لوگوں پر ہوگا؟


سوال

اس تحریر کا جواب طلب ہے جو کہ آپ کے فتوی کو کوٹ(Quote) کر کے لکھی گئی ہے،:

' اما بعد : سیّد کا معنی و مفہوم : عوام کی غلط فہمی اور اہل علم کا سہو ! اسلام نے ذات حسب نسب اور قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے، قرآن نے واضح کیا ہے کہ قوم، قبیلہ، ذات، برادری، حسب نسب محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں،  کما قال اللہ عز و جل (ترجمہ) : اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو،بےشک اللہ  کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بےشک اللہ  خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے ۔( سورۃ الحجرات: 13 )

لغت میں سید کا معنی و مفہوم : سید کا مطلب ہے پالنے والا، مالک، (یہ پہلے دو معنی فقط رب تعالیٰ کو جچتے ہیں،  جیسا کہ نبی پاک نے فرمایا: سید تو اللہ تعالیٰ ہے- رواہ ابو داؤد) صاحب شرف، صاحب فضیلت، کریم، بردبار، قوم کی تکلیف برداشت کرنے والا، خاوند، رئیس سب سے آگے رہنے والا۔ (علامه ابن منظور، لسان العرب، بيروت)

دور حاضر میں سید مخصوص ذات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس کی نسبت سیدنا حسنین کریمین رض کی طرف کی جاتی ہے… نہ صرف عوام، بلکہ خواص تک اس اصطلاح کو انہی کے ساتھ خاص کرتے ہیں، حتی کہ فتاوی جات میں لکھا ہے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کی نسل کے علاوہ کسی کے لیے سید استعمال کرنا جائز نہیں۔

جیسے فتاوی بنوری ٹاؤن میں ہے…"ہر کسی کو سید کہنا درست نہیں…صرف حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نسل سے آنے والے گھرانوں کو ’’سید‘‘ کہنا چاہیے۔" (ماخذ: دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن ،فتوی نمبر: 144106200533 تاریخ اجراء: 09-02-2020 )

جب کہ قرآن و سنت کی رو سے سید کا استعمال ہر کسی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے،جیسا کہ قرآن و سنت سے دلائل پیش خدمت ہیں:

• قرآن میں سید کا استعمال: 1-سیدنا یحیی علیہ السلام کے لیے فرمایا: سَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ.( سورۃ آل عمران :39 ) ترجمہ: وہ لوگوں کے پیشوا ہوں گے۔

2-زلیخا کے شوہر کے لیے فرمایا:وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ( سورۃ یوسف: 25 )ترجمہ: دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر کھڑا پایا۔

• کتب احادیث میں سید کا استعمال: 1-آپ علیہ السلام کا اپنی ذات مبارک لیے سید کا استعمال کرنا:" أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" ترجمہ: میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔ (بخاری،مسلم،ترمذی باختلاف یسیر)

2-آپ علیہ السلام کا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی ذات کے لیے سید کا استعمال کرنا:" ابنی ھٰذَا سیِّدٌ" ترجمہ: میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ (بخاری،باب مناقب حسن رضی اللہ عنہ)

3-آپ علیہ السلام کا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ  کے لیے سید کا استعمال فرمانا:" سيِّدُ الشُّهداءِ حمزةُ بنُ عبدِ المطَّلبِ…"( رواہ الطبرانی و الحاکم وابن حبان و الدیلمی والھیثمی باختلاف یسیر)

4-آپ علیہ السلام کا سردارِ انصار کے لیے سید کا استعمال فرمانا؛قوموا إلى سيدِكم، اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ (بخاری ومسلم) . اور بھی کئی احادیث میں سید کا استعمال مختلف اشخاص اور اشیاء کے لیے ہوا ہے جیسے جمعہ مبارک کو سید الایام اور دعاء مخصوص کو سید الاستغفار فرمایا ،اسی طرح گوشت کو سید الطعام اور آدمی کو اہل و عیال کا سید اور عورت کو گھر کی سیدہ فرمایا… تو معلوم ہوا سید نہ تو کوئی خاص ذات ہے اور نہ ہی کسی کے ساتھ خاص ہے کہ اوروں کے لیے استعمال منع ہو، جب کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو بنی ہاشم سے فرمایا : واصْطَفانِي مِن بَنِي هاشِمٍ۔ ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے مجھے بنی ہاشم سے چنا (رواہ مسلم) اسی طرح انساب کی تمامی کتب میں سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکے نسب کو ہاشمی قریشی بتلایا گیا ہے نہ کہ سید، لہذا آل حسنین کو نسبا سید کہنا قرآن و حدیث اور لغت و نسب کے یکسر خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث کو سننے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین"

جواب

 لغت میں لفظ سیدکا اطلاق صاحبِ شرف،معزز اورمحترم شخص یا چیزپر  کیا جاسکتا ہے لیکن موجود عرف میں نام  کی ابتدا میں یہ لفظ نسب کو بتانے  کے لیے استعمال ہوتا  ہے،"سید" کا اطلاق  حضرت علی رضی اللہ عنہ   کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی اولاد یعنی  حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما کی اولاد پر ہوتا ہے ،  یوں یہ لفظ حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما اور ان کی اولاد کی  نسبی علامت اور پہچان  بن چکا ہے،  لہذا "سید"کا اطلاق  ان حضرات (حسن رضی اللہ عنہ،حسین رضی اللہ عنہ ) کی اولاد کے علاوہ پر کرنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں غیر کی طرف نسبت کرنے کا وہم ہے۔

لہذا مذکورہ فتوی میں عرفی اعتبار سے نام یا نسب کے اعتبار سے سید  کہنے کو منع کیا گیا ہے جب کہ ذکر کردہ نصوص اور مثالوں میں سید کا اطلاق جن اشخاص اور چیزوں پر ہوا ہے وہ لغوی اعتبار سے ہوا ہے ، لہذا فتوی اور آپ کے نقل کردہ حوالہ جات میں کوئی تعارض نہیں۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ عرف میں  لفظِ "سید"  کے استعمال کے حوالے سے مذکورہ اصطلاح بعد کے اَدوار میں طے ہوئی  ہے، لہٰذا  کسی نص کے لغوی استعمال کو لے کر اعتراض کرنا بھی درست نہیں ہے؛  کیوں کہ  یہ نصوص عرفی اِصطلاح کے قیام سے پہلے عمومی معنیٰ میں استعمال کی گئی ہیں۔

لسان العرب میں ہے:

"قال: والسيد يطلق على الرب والمالك والشريف والفاضل والكريم والحليم ومحتمل أذى قومه والزوج والرئيس والمقدم، وأصله من ساد يسود فهو سيود، فقلبت الواو ياء لأجل الياء الساكنة قبلها ثم أدغمت."

(فصل السین المھمله، ج:3، ص:228، ط: دار صادر بيروت)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"أن مقتضى اللفظ قد يترك به بدلالة العرف."

(البنایۃ شرح الھدایۃ،جلد10،صفحہ58،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

الحاوی للفتاویٰ میں ہے:

"إن ‌اسم ‌الشريف كان يطلق في الصدر الأول على كل من كان من أهل البيت سواء كان حسنيا أم حسينيا أم علويا، من ذرية محمد بن الحنفية وغيره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفريا أم عقيليا أم عباسيا، ولهذا تجد تاريخ الحافظ الذهبي مشحونا في التراجم بذلك يقول: الشريف العباسي، الشريف العقيلي، الشريف الجعفري، الشريف الزينبي، فلما ولي الخلفاء الفاطميون بمصر قصروا ‌اسم ‌الشريف على ذرية الحسن والحسين فقط، فاستمر ذلك بمصر إلى الآن، وقال الحافظ ابن حجر في كتاب الألقاب: الشريف ببغداد لقب لكل عباسي، وبمصر لقب لكل علوي انتهى.

ولا شك أن المصطلح القديم أولى وهو إطلاقه على كل علوي وجعفري وعقيلي وعباسي كما صنعه الذهبي وكما أشار إليه الماوردي من أصحابنا، والقاضي أبو يعلى بن الفراء من الحنابلة كلاهما في الأحكام السلطانية، ونحوه قول ابن مالك في الألفية: وآله المستكملين الشرفا، فلا ريب في أنه يطلق على ذرية زينب المذكورين أشراف، وكم أطلق الذهبي في تاريخه في كثير من التراجم قوله: الشريف الزينبي، وقد يقال: يطلق على مصطلح أهل مصر: الشرف أنواع عام لجميع أهل البيت، وخاص بالذرية، فيدخل فيه الزينبية وأخص منه شرف النسبة، وهو مختص بذرية الحسن والحسين."

(كتاب الأدب والرقائق، العجاجة الزرنبية في السلالة الزينبية، ج:2، ص:39، ط:دار الفكر)

کفایت المفتی میں ہے:

" سوال: بنو فاطمہ کے علاوہ بنو ہاشم بھی سید ہے یا نہیں؟ 

جواب :بنو فاطمہ کے علاوہ بھی دوسرے ہاشمی بھی لغۃً احتراماً سید ہے اور حرمت صدقہ کے حکم میں شامل ہے مگر اصطلاحاً سید کا لفظ صرف بنو فاطمہ کے لیے خاص کیا گیا ہے۔"

(کفایت المفتی، کتاب العقائد، ج: 1، ص: 264 ط:دارالاشاعت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں