بیوی اپنےشوہرسےخلع کامطالبہ کررہی تھی ، شوہرنےکہاکہ :اگرخلع لیناہےتوپھربچے میرےحوالےکرنے ہوں گے، چناں چہ لڑکی کےگھروالوں نےخلع نامہ بنواکرپہلے لڑکی نے اس پردستخط کی، اورپھراس کےشوہرنے، شوہردستخط نہیں کررہےتھے، لیکن پھراس شرط پردستخط کرلیے کہ بچےمیرےحوالے کیےجائیں گے، اب دستخط کرنےکےبعد لڑکی نےصرف بڑابیٹا (جوکہ 8سال کا ہے) شوہر کے حوالےکردیا، اوروہ بھی صرف22دن تک، اوربقیہ ایک بچہ (جو4سال کاہے)سرے سےشوہرکےحوالے ہی نہیں کیا۔
پوچھنایہ ہےکہ یہ خلع درست اورطلاق واقع ہوئی ہےیانہیں ؟
ملحوظ رہےکہ شوہرخلع نامہ پڑھنےکےبعددستخط کرچکےہیں۔
صورتِ مسئولہ میں منسلکہ خلع نامہ میں درج ہےکہ :"فریق دوم مسمی فلاں بن فلاں نے فریق اول مسماۃ فلانہ بنت فلاں کے مطالبہ مہر کے عوض خلع پر اسےخلع دےکراپنےنکاح کےبندھن سےآزاد کردیاہے"، لہذاجب شوہرنےاس پردستخط کیےتوبیوی پرایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے، نکاح ختم ہو چکاہے، اب میاں بیوی کےلیےازدواجی تعلقات کوبرقراررکھناجائز نہیں، البتہ اگرمیاں بیوی پھرسے تعلقات بحال کرناچاہتےہیں تونئےمہرکےساتھ شرعی گواہوں (دومردیاایک مرداوردوعورتیں ) کی موجودگی میں تجدیدِنکاح کریں، تاہم آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاق دینے کا اختیارہوگا۔
جو بیٹا 8سال کاہےاس کی تربیت کا حق والد کوحاصل ہے، تاہم والدہ کواس بیٹےسےملاقات کرنےسےروکنادرست نہ ہوگا، 4سال کےبیٹےکی پرورش کاحق 7سال کی عمرتک والدہ کوحاصل ہے، البتہ والد اس سےملاقات کرسکتاہے، 7سال کی عمرمکمل ہونےکےبعداس بچے کی تربیت کاحق والد کوحاصل ہوگا، بہرصورت کمائی کےقابل ہونےتک دونوں بیٹوں کاخرچہ والدکےذمے ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو۔"
(کتاب الطلاق، الفصل السادس في الطلاق بالكتابة، 378/1، ط:دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) حكمه أن (الواقع به) ولو بلا مال (وبالطلاق) الصريح (على مال طلاق بائن) وثمرته فيما لو بطل البدل كما سيجيء.
(و) الخلع (هو من الكنايات فيعتبر فيه ما يعتبر فيها) من قرائن الطلاق۔"
(قوله: والخلع من الكنايات) لأنه يحتمل الانخلاع عن اللباس، أو الخيرات، أو عن النكاح عناية، ومثله المبارأة۔"
(کتاب الطلاق، باب الخلع، 444/3، ط:سعید)
وفیه ایضاً:
"ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا
(قوله خلية) بفتح الخاء المعجمة فعيلة بمعنى فاعلة: أي خالية إما عن النكاح أو عن الخير ح: أي فهو عن الأول جواب، وعلى الثاني سب وشتم، ومثله ما يأتي۔"
(کتاب الطلاق، باب الكنايات، 298/3، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."
(الباب السادس عشر في الحضانة، 543/1، ط:دار الفکر)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة ... و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق علی الولد."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، 560/1، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601101018
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن