بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سہواً بغیر وضو کے نماز جنازہ پڑھانے کا حکم


سوال

ایک امام نے بھولے سے قبرستان میں چند ماہ کے بچے کا نماز جنازہ بغیر وضو کے پڑھا دیا ، نمازیوں کے جانے کے بعد امام کو یاد آیا کہ میرا وضو نہیں تھا ، مگر نماز جنازہ میں شریک لوگ نامعلوم جگہ سے آئے تھے ، بعد میں امام نے اکیلے میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ، اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

اگر بغیر وضو کے نمازِ جنازہ پڑھادی گئی تو نماز جنازہ ادا نہیں ہوئی، اس نمازِ جنازہ کا اعادہ امام اور مقتدیوں دونوں پر لازم تھا، اگر دفن کرنے کے بعد یاد آیا کہ امام کا وضو نہیں تھا تو  قبر پر اس وقت تک جنازہ کی نماز پڑھنا لازم ہے جب تک کہ  میت کے سڑنے اور پھٹنے کا غالب گمان نہ ہو، اور میت کے گلنے سڑنے کی مدت حتمی طور پر متعین نہیں ہے، موسم کے گرم و سرد ہونے، میت کی جسامت اور زمین کی ساخت کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں اس کی مدت مختلف ہوسکتی ہے، بعض فقہاء نے اس کی تحدید تین دن سے کی ہے، یعنی تین دن بعد میت گلنا اور سڑنا شروع ہوتی ہے، لہٰذا معتدل علاقوں میں دفن کے وقت سے تین دن بعد تک بھی اگر قبر پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جاسکی تو پھر اس کے بعد نہیں پڑھنی چاہیے۔

باقی امام کا اکیلے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا شرعاً جائز نہیں ،اس لیے کہ نمازِ  جنازہ کی  شرائط میں سے یہ ہے کہ  میت نماز پڑھنے والے کے سامنے موجود ہے، اگر میت وہاں موجود نہ ہو تو نماز صحیح نہ ہوگی، اب امام اپنےاس عمل پر توبہ و استغفار كرے، آئنده امامت كے معاملے ميں مكمل احتياط سے كام لے،البتہ مقتدیوں پر امام کے اس عمل کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"أنهم لو صلوا على جنازة والإمام غير طاهر فعليهم إعادتها؛ لأن صلاة الإمام غير جائزة لعدم الطهارة فكذا صلاتهم؛ لأنها بناء على صلاته."

(کتاب الصلاۃ،فصل بيان ما تصح بہ صلاة الجنازة،315/1،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحساناً (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير، هو الأصح. وظاهره أنه لو شك في تفسخه صلي عليه، لكن في النهر عن محمد لا كأنه تقديماً للمانع.

 (قوله: صلي على قبره) أي افتراضاً في الأوليين وجوازاً في الثالثة؛ لأنها لحق الولي أفاده ح. أقول: وليس هذا من استعمال المشترك في معنييه كما وهم؛ لأن حقيقة الصلاة في المسائل الثلاث واحدة، وإنما الاختلاف في الوصف وهو الحكم، فهو كإطلاق الإنسان على ما يشمل الأبيض والأسود فافهم (قوله: هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حراً وبرداً والميت سمناً وهزالاً والأمكنة، بحر، وقيل: يقدر بثلاثة أيام، وقيل: عشرة، وقيل: شهر ط عن الحموي."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،224/2،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"فلاتصح علی غائب وصلاة النبي صلی الله علیه وسلم علی النجاشي لغویة أوخصوصیة." 

 (کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،209/2،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں