بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکاء میں سے ایک کے نقصان کی صورت میں باقی کا اس کو قبول نہ کرنے کا حکم


سوال

چار بھائی اکٹھے کاروبار کرتے تھے،اور ان کے ساتھ ان سب کے بیٹے بھی مشترک  تھے، کاروبار مختلف چیزوں کا  تھا،مثلاً ٹرانسپورٹ ،پراپرٹی ،گندم وغیرہ  کی خرید و  فروخت کرتےتھے،  اب ان میں سے تین بھائیوں کا  انتقال ہوچکا ہے،اور  ان سب میں یہ معاہدہ   طے ہوا تھا، کہ نفع اور نقصان میں ہم سب شریک ہوں   گے، صورت اس کی یہ تھی کہ  ہر   ایک بھائی جتنا نفع و نقصان ہوتا تو  اس کی اطلاع سب کو  دی جاتی، تو پھرباقی سب بھائی اس نفع ونقصان میں مشترک  ہوتے،اور اب ان ایک بھائی کے ایک بیٹےکا نقصان ہو ا ہے،  اب باقی  تینوں بھائیوں  کی اولاد  اس نقصان کو مشترکہ طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں،حالاں کہ جس مرحوم  بھائی  کے بیٹے کا نقصان ہوا ہے،اب تک اس مرحوم کے ہر بیٹے سے مشترکہ طور پر نفع لے رہے تھے، اور اب جب نقصان ہوا تو  کہتے  ہیں کہ اس نقصان کو  ہم برداشت نہیں کریں گے،پوچھنا یہ ہے کہ ان  کا اس طرح انکار کرنا صحیح ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ   چار بھائیوں اور ان کی اولاد  (بیٹے) سب کا یہ معاہدہ ہوا تھا، کہ نفع  اورنقصان سب کے لیے برابری  کے ساتھ ہوگا،لہذا ابھی جس بھائی کے  بیٹے کا نقصان ہوا ہے،اگر اس کا معتبر ثبوت موجود ہو تو سب شرکاء پر برابری کے ساتھ اس نقصان کو  تقسیم  کرنا ضروری ہے،  اور باقی بھائیوں کے بیٹوں  کا اس نقصان سے انکار کرنا صحیح نہیں ہے، اور اگر اس نقصان پر کوئی معتبر ثبوت نہیں ہے تو پھر انکار کرنا درست ہے۔

الموسوعة الفقهیة میں ہے:

"عرف الحنفية شركة العقد بأنها: " عقد بين المتشاركین في الأصل والربح " كذا نقلوه عن صاحب الجوهرة."

(حرف الشين، شركة العقد، تعريفها،  ج:26 ص:33 ط:وِزارة الأوقاف و الشؤن الإسلامیة)

دررالحکام شرح غرر الأحکام میں ہے:

"(وهي) أي شركة العقد (ثلاثة) الأول (شركة بالأموال و) الثاني (شركة بالأعمال وتسمى) هذه الشركة اصطلاحا (شركة الصنائعِ، و) شركة (التقبل، و) شركة (الأبدان) ووجه التسمية ظاهر.(و) الثالث (شركة الوجوه)."

( کتاب الشرکة ج:2 ص:318 ط:دار إحياء الكتب العربية)

‌‌النتف فی الفتاوی میں ہے:

شرائط المفاوضة:

"ينبغي ان يكونا حرين بالغين مسلمين مستويين في رأس المال مستويين في الربح والوضيعة اما الحران من معنى ان تجارة الحر اعم من تجارة العبد ويجوز للحر شراء كل شيء مما لا يجوز للعبد..."

(كتاب الشركة، شرائط المفاوضة، ص:323 ط:رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں