بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکاء میں سے ایک شریک کا اپنا حصہ کسی دوسرے شریک کو فروخت کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک دکان ہے جسمیں چار بندے شریک ہیں، ان میں سے ایک شریک نے اپنا حصہ بقیہ تین شرکاء میں سے ایک شریک کو  فروخت کردیا، اب آیا اس شریک کا اپنا حصہ کسی دوسرے شریک پر فروخت کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ بقیہ شرکاء اس پر راضی نہیں بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ حصہ کسی ایک پر نہیں بلکہ ہم تمام شرکاء پر برابر فروخت کرنا چاہیے، اب ان کا یہ مطالبہ کرنا شرعا کس حد تک درست ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں ہر شریک کو اپنا حصہ فروخت کرنے کا حق ہوتا ہے، کیونکہ ہر شریک دوسرے شریک کے حصہ کے لئے اجنبی ہوتا ہے، لہذا شرکاء میں کسی شریک نے اپنا حصہ دوسرے شریک کو فروخت کردیا ہے، تو شرعا یہ جائز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں، البتہ اگر ایک شریک کو فروخت کرنے میں دیگر شرکاء کو ضرر پہنچ رہا ہو تو اس صورت میں باقی شرکاء سے اجازت لےکر  فروخت کرے یا ان شرکاء کو فروخت کرے۔

شرح المجلّۃ لرستم باز  میں ہے:

"لأحد الشریكین إن شاء باع حصته إلی شریکه و إن شاء باعها لآخر بدون إذن شریکه… أمّا في صورخلط الأموال واختلاطها التي بینت في الفصل الأول لایسوغ لأحد الشریکین أن یبیع حصته في الأموال المشترکة المخلوطة أو المختلطة بدون إذن شریکه۔ أما لو باعها بإذن شریکه أو باعها من شریکه جاز کما في الملتقی وغیره، والفرق: أن الشرکة اذا کانت بینهما من الإبتداء بأن اشتریا حنطة أو ورثاها کانت کل حبة مشترکة بینهما، فبیع کل منهما نصیبه شائعاً جائز من الشریک والأجنبي، بخلاف ما اذا کان بالخلط أو الإختلاط؛  لأن کل حبة مملوکة لأحدهما بجمیع أجزائها لیس للآخر فیها شرکة، فإذا باع نصیبه من غیر إذن الشریک لایقدر علی تسلیمه إلا مخلوطاً بنصیب الشریک فیتوقف علی إذنه، بخلاف بیعه من الشریک للقدرة علی التسلیم۔ (مجمع الانهر)  قلت: ومثل الخلط والإختلاط بیع مافیه ضرر علی الشریک أو البائع أو المشتری کبیع الحصة الشائعة من البناء أو الغراس أو الزرع بدون الأرض، وقد استوفینا الکلام علی ذلک في شرح المادة: (۲۱۵) و مثله لو باع أحد الشریکین بیتاً معیناً باع من دار مشترکة أو باع نصیبه من بیت معین منها فالبیع لایجوز۔ (رد المحتار) وذلک لتضرر الشریک الآخر عند القسمة إذ لوصح البیع في نصیب البائع لتعین نصیبه فیه."

(الکتاب العاشر : في أنواع الشرکات ، الباب الأوّل : في شرکة الملک وتقسیمها ، الفصل الثاني : في کیفیة التصرف في الأعیان المشترکة: 1/ 483 ، المادة: ۱۰۸۸، ط: فاروقیه کوئٹه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں