بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کہتاہے کہ زندگی میں ساری جائیداد میری ہے اور موت کے بعد بیوی کی ہوگی


سوال

میری شادی کو 38 سال ہوچکے ہیں،ہماری کوئی اولاد نہیں ہے،مجھے شادی میں میرے والدین نے مکان اور دیگر سامان جہیز میں دیاتھا، میرے شوہر نے میری اجازت سے وہ مکان بیچ کر میرے لیے اس کی رقم سے دوسرا مکان میرے نام پرلیا، جس میں ابھی میری رہائش ہے،اب میرے تین سوال ہیں:

1۔یہ مکان جو شوہر نے میرے لیے میرے نام پر خریدامیرے مکان کو بیچ کر یہ کس کی ملکیت ہے؟ 

2۔میرے شوہر کے پاس کے جتنی جائیداد ہے وہ  ہم دونوں زندگی میں آپس  میں تقسیم کرسکتے ہیں یانہیں؟

3۔شوہر کہتاہے کہ میری زندگی میں میری ساری جائیداد میری ہے، میں مرجاؤں تو پھر سب تمہاری ہوگی، اور اگر  تم پہلے مرگئی تو پھر سب جائیداد میری ہوگی، کیاشرعًا اس طرح کرناجائز ہوگا؟ اگر شوہر زندگی میں تقسیم نہیں کرتے توپھر وراثت کے کیااصول ہوں گے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے سائلہ کامکان اُس کی اجازت سے بیچ کر اُس کی رقم سے سائلہ کے لیے دوسرامکان خریداتواب  یہ دوسرا مکان سائلہ کی ملکیت ہے۔

2۔زندگی میں انسان اپنی جائیداد کامالک ہوتاہے، اس کواس میں ہرقسم کے جائز تصرف کااختیار حاصل ہوتاہے، لہٰذا سائلہ کاشوہر اگراپنی خوشی سے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان تقسیم کرناچاہے تو کرسکتاہے۔

3۔سائلہ کے شوہر کایہ کہناکہ " میری زندگی میں میری ساری جائیداد میری ہے، میں مرجاؤں تو پھر سب تمہاری ہوگی، اور اگر  تم پہلے مرگئی تو پھر سب جائیداد میری ہوگی" درست نہیں ہے، سائلہ اوراس کے شوہر میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کامالک ہے ،البتہ دونوں میں سے کسی ایک کی موت کی صورت میں اس کی کل جائیداد دوسرے کو نہیں ملے گی ، بلکہ مرنے والے کے موت کے وقت اس کے جتنے شرعی ورثاء ہوں گے وہ سب اس کی جائیداد میں اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوں گے۔

فتح القدیر میں ہے:

"ومنها شرط النفاذ وهو الملك والولاية، حتى إذا ‌باع ‌ملك ‌غيره توقف النفاذ على الإجازة ممن له الولاية."

(كتاب البيوع، 248/6، ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے :

"للمالك أن یتصرف فی ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعویٰ، 264/6، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث."

(كتاب الفرائض، 447/6، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402100777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں