بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شفعہ کی مدت


سوال

شفعہ کی مدت کیا ہے؟

جواب

 واضح  رہے کہ  زمین کے مالک کی طرف سے زمین فروخت کرنے کے بعد  شفیع کے لیے شفعہ کا حق ثابت ہوتا ہے،  زمین کی بیع ہونے سے پہلے اگر مالک کے پوچھنے پر شفیع خاموش رہے یا انکار بھی کردے تو بھی خرید وفروخت کا معاملہ ہونے کے بعد اس کو شفعہ  کا حق حاصل ہوگا۔

البتہ بیع کا علم ہونے کے بعد اگر شفیع نے فوراً شفعہ طلب نہیں کیا، بلکہ معلوم ہونے کے بعد اس مجلس میں بالکل خاموش رہا یا انکار کردیا تو اب اس کا حق باطل ہوجائے گا، اور اگر اس مجلس میں شفعہ کا مطالبہ کیا اور بائع (فروخت کنندہ) وہ مکان دینے پر راضی نہ ہو تو ایک ماہ کے اندر اندر شفیع کو عدالت میں حقِ شفعے کا دعویٰ دائر کرنا ضروری ہوگا۔

فتاوی مفتی محمود میں ہے: 

"اگر بیع کا علم ہوتے ہی شفعہ کرنے کا شرعًا جو طریقہ ہے شفیع اسے علی وجہ الکمال اختیار کر چکا ہے تو اس کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر عدالت میں دعوی خصومت دائر کرنا ضروری ہے اور اگر ایک ماہ گزر جائے اور وہ دعوی دائر نہ کرے تو اس کے شفعہ کا حق باطل ہو جائے گا۔" (جلد ۹ ص: ۴۶۸)

الفتاوى الهندية (5/ 161):

"(وأما) (حكمها) فجواز طلب الشفعة عند تحقق سببها وتأكدها بعد الطلب وثبوت الملك بالقضاء بها وبالرضا، هكذا في النهاية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 222):

"(أسقط) الشفيع قبل (الشفعة الشراء لم يصح) لفقد شرطه وهو البيع.  (قوله: لفقد شرطه وهو البيع) أي وإن وجد السبب وهو اتصال ملك الشفيع بالمشرى؛ لأنه لايكون سببًا إلا عند وجود الشرط، كما في الطلاق المعلق، منح ملخصًا". 

الفتاوى الهندية (5/ 182):

"تسليم الشفعة قبل البيع لايصح، وبعده صحيح، علم الشفيع بوجوب الشفعة أو لم يعلم، علم من أسقط إليه هذا الحق أو لم يعلم، كذا في المحيط."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں