بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شریک کی اجازت کے بغیر مکمل مکان وقف کرنا جائز نہیں


سوال

ایک مکان میری ساس کے دونوں بھائیوں نے اپنی ذاتی پیسوں سے مل کر بنایا تھا اور اپنی بہن یعنی میری ساس کو رہنے کے لیے دیا تھا اور کہا تھا کہ "جب تک تمہارے بچے یہاں رہنا چاہیں  رہ سکتے ہیں "اور پھر میری ساس  اس مکان میں رہنے لگیں اور اپنا مکان بیچ دیا، میری ساس کو مکان دیتے وقت ان کے بھائی اس مکان میں نہیں رہتے تھے،بلکہ مکمل طور سے بہن کو دے دیا تھا،ساس کے دو بھائیوں میں سے ایک بھائی، جس کے نام پریہ مکان تھا ،اس کی بیوی اس سے ہر وقت لڑتی رہتی تھی کہ آپ کی بہن اس مکان میں کیوں رہتی ہے ،اس پرمذکورہ بھائی نے  تنگ آکر یہ مکان دوسرے بھائی کو بتائے بغیر   مسجد کے نام پر وقف کر دیا اور ڈاکومنٹس بھی مسجد والوں کو دے دیے تھے،دوسرے بھائی کو جب پتہ چلا تو وہ اس پر راضی نہیں تھا اور کہا کہ میری تو اتنی گنجائش نہیں ہے،تمہاری گنجائش ہے ،تم کرسکتے ہو،جس بھائی نے وقف کیا تھا، اس نے کہا کہ میں نے تو مسجد والوں کو ڈاکومنٹس بھی دے دیے ہیں تو پھر مجبورا وہ بھی خاموش ہوگئے، ڈاکومنٹس اب بھی مسجد والوں کے پاس ہیں،وقف  بیس سال پہلے کیا گیا تھا،اب دونوں بھائیوں کا انتقال ہوگیا ہے، مگر اس دوران مسجد والوں کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور معاملہ ایسے ہی چلتا رہا، البتہ اس گھر کے سارے بل  میری ساس کے نام پر ہیں ،میری ساس کے تین بیٹوں میں سے دو بیٹے اپنے اپنے مکان میں رہتے ہیں اور میرےشوہر والدہ کے ساتھ اسی مکان میں رہتے تھے ،جب میری شادی ہوئی اور میں رخصت ہو کر آئی تو میری ساس  نے یہ کہا تھا کہ "یہ تمہارا مکان ہے، "اب میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ،میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ،میری ساس بھی اس مکان میں رہتی ہیں ،اب اچانک مسجد والے یہ گھر خالی کروا رہے ہیں اور انہوں نے کیس کر دیا ہےاور مجھے مسجد والوں نے ہی فتوی لینے کے  لیے بھیجا ہے، کیا شرعی اعتبار سے میرا اس مکان میں کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں ،جب کہ میں بیوہ  ہوں، کہاں جاؤں گی؟

نوٹ:مکان چار سو گز پر مشتمل ہے،اس پر دو کمرے اور بیت الخلاء  دونوں بھائیوں کے مشترکہ سرمایہ سے بنے تھے،پھر ساس نے مزید دو کمرے بنوائے اور اوپر بھی تعمیر کیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کی ساس کے دونوں بھائیوں نے اپنے ذاتی پیسوں سے مل کر ایک مکان  بنایا  تومذکورہ مکان دونوں بھائیوں کے درمیان سرمایہ کے تناسب کے اعتبار سے مشترک تھا،پھر جب ایک بھائی نے دوسری بھائی کی رضامندی  اور علم میں لائے بغیر مسجد کے نام پر وقف کردیا تو شرعا یہ وقف درست نہیں ہوا تھا،جب کہ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کا مذکورہ مکان میں  حصہ بھی  متعین نہیں تھا،مکان بدستور دونوں کی ملکیت میں برقرار تھا،اب دونوں بھائیوں کے انتقال کے بعد دونوں کے ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے اعتبار سے  اس مکان کے حق دار ہیں، البتہ ساس نے جو تعمیرات کی ہیں، ان  تعمیرات کا خرچہ  ساس کو ملے گا،مسجد والوں کا مکان خالی کرانے کا مطالبہ درست نہیں ہے۔

باقی  سائلہ کی ساس کااسے رخصتی کے بعد یہ کہنے سے کہ  "یہ تمہارا مکان  ہے" سائلہ کا نہیں ہوا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"وحاصله: أن اللفظ إن أنبأ عن تملك الرقبة فهبة أو المنافع فعارية أو احتمل اعتبر النية نوازل وفي البحر أغرسه باسم ابني، الأقرب الصحة۔"

(کتاب الھبۃ،5/ 689،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز وقف القن على مصالح الرباط خلاصة(ك) ما صح وقف (مشاع قضي بجوازه) لأنه مجتهد فيه، فللحنفي المقلد أن يحكم بصحة وقف المشاع وبطلانه لاختلاف الترجيح (قوله: كما صح وقف مشاع قضى بجوازه) ويصير بالقضاء متفقا عليه والخلاف في وقف المشاع مبني على اشتراط التسليم وعدمه لأن القسمة من تمامه فأبو يوسف أجازه لأنه لم يشترط التسليم ومحمد لم يجزه لاشتراطه التسليم كما مر عند قوله ويفرز، وقدمنا أن محل الخلاف فيما يقبل القسمة بخلاف ما لا يقبلها فيجوز اتفاقا إلا في المسجد والمقبرة۔"

(کتاب الوقف،مطلب فی وقف المساع المقضی بہ،4/ 361،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(فصل في وقف المشاع) الشيوع فيما لا يحتمل القسمة لا يمنع صحة الوقف بلا خلاف ألا يرى أنه لو وقف نصف الحمام يجوز وإن كان مشاعا كذا في الظهيرية وقف المشاع المحتمل للقسمة لا يجوز عند محمد - رحمه الله تعالى - وبه أخذ مشايخ بخارى وعليه الفتوى كذا في السراجية والمتأخرون بقول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه يجوز وهو المختار وكذا في خزانة المفتين واتفقا على جعل المشاع مسجدا أو مقبرة مطلقا سواء كان مما لا يحتمل القسمة أو يحتملها هكذا في فتح القدير وإذا قضى القاضي بصحة وقف المشاع نفذ قضاؤه وصار متفقا عليه كسائر المختلفات كذا في شرح أبي المكارم للنقاية ثم فيما يحتمل القسمة إذا قضى القاضي بصحته فطلب بعضهم القسمة لا يقسم عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ويتهايئون وعندهما يقسم كذا في الخلاصة وأجمعوا أن الكل لو كان وقفا أرادوا القسمة به لا يجوز وكذا التهايؤ كذا في فتح القدير۔

(کتاب الوقف،فصل فی وقف المشاع،2/ 365،ط:رشیدیۃ)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ومنها أن يكون الموقوف مقسوما عند محمد فلا يجوز وقف المشاع، وعند أبي يوسف هذا ليس بشرط، ويجوز مقسوما كان أو مشاعا؛ لأن التسليم شرط الجواز عند محمد، والشيوع يخل بالقبض والتسليم، وعند أبي يوسف التسليم ليس بشرط أصلا، فلا يكون الخل فيه مانعا، وقد روي عن سيدنا عمر - رضي الله عنه - أنه ملك مائة سهم بخيبر فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «احبس أصلها» فدل على أن الشيوع لا يمنع صحة الوقف، وجواب محمد - رحمه الله - يحتمل أنه وقف مائة سهم قبل القسمة، ويحتمل أنه بعدها، فلا يكون حجة مع الشك والاحتمال، على أنه إن ثبت أن الوقف كان قبل القسمة، فيحمل أنه وقفها شائعا ثم قسم وسلم، وقد روي أنه فعل كذلك، وذلك جائز كما لو وهب مشاعا ثم قسم وسلم۔

(کتاب الوقف،فصل فی الشرائط التی ئرجع الی الموقوف،6/ 220،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں