بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرمگاہ کو چاٹنے کی صورت میں نکاح کا حکم


سوال

میاں بیوی  اگر غلطی  سے شہوت میں آکر ایک دوسرے کے آگے  پیچھے دونوں شرمگاہوں کو   چاٹیں، تو  نکاح ٹوٹ  جاتا ہے؟ اگر نہیں تو  توبہ قبول ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی کا  ایک دوسری کی  شرم گاہ کو  چاٹنا شرعاً مکروہ  ہے،  تاہم اس سے نکاح پر کسی قسم کا فرق نہیں پڑتا، بلکہ نکاح برقرار رہتا ہے،نیز مسلمان کے لیے توبہ  کے دروازے  موت  تک کھلے ہوے ہیں،لہذا کوئی بھی  مسلمان جب بھی صدق دل سے توبہ  کرے گا، تو اللہ تبارک وتعالی اپنے فضل سے اس کی توبہ قبول فرمائیں گے۔

قرآن کریم میں ہے:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ."(سورۃ النساء:48)

ترجمہ:’’بے شک الله تعالیٰ اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص الله تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہؤ ا ۔‘‘ (بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في النوازل إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة."

(کتاب الکراهیة ، الباب الثلاثون فی المتفرقات،372/5، ط :رشیدیة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"إذا ‌أدخل ‌الرجل ذكره فم أمرأته فقد قيل: يكره؛ لأنه موضع قراءة القرآن، فلا يليق به إدخال الذكر فيه، وقد قيل بخلافه."

(کتاب الاستحسان و الکراهیة ، الفصل الثانی و الثلاثون فی المتفرقات، 408/5، ط : دارالکتب العلمیة ، بیروت ۔ لبنان)

فتاوی رحیمیه میں ہے:

 ’’بے شک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے، ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرم گاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے۔ غور کیجیے! جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل  کیسے گوارا کرسکتاہے؟‘‘

(کتاب الحظر و الاباحۃ  جلد ۱۰ ص:۱۷۸ ط:دارالاشاعت کراچی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں