بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان کرایہ پر لیکر اس میں دکاندار اگر شراب بھی فروخت کرے تو اس کرایہ کا حکم


سوال

ایک صاحب کی امریکہ میں ایک عمارت ہے،  جس میں انہوں نے دکانیں کریایہ پر دی ہیں، ان دکانوں میں سے ایک دکان پرچون کی ہے،  اور وہ صاحب دوسری ضروری اشیاء کے ساتھ شراب بھی بیچتے ہیں، اگر اس دکاندار کی آمدنی کا تناسب لگایا جائے تو شراب سے حاصل ہونے والی آمدن (20) سے (30)  فیصد ہوگی، کیا اس دکان کا کرایہ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر شراب فروخت کرنے والا ذمی ہے یا غیرمسلم ہے اور وہ  دیگر اشیاء ضروریہ کے ساتھ شراب بھی فروخت کرتا ہے، تو مالکِ دوکان کے لیے  مذکورہ دوکان کی آمدنی سے حاصل ہونے والا  کرایہ وصول کرنا حرام تو نہیں ہے، لیکن بچنا بہتر ہے اور اگر صرف شراب بیچنے کےلئے دی تو جان بوجھ کر کسی غیر مسلم کو بھی دکان کرایہ پر دینا درست نہیں،  تاہم اگر شراب فروخت کرنے والا مسلمان ہے تو مسلمان کو شراب فروخت کرنے کے لیے دوکان کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے اور کرایہ بھی حلال نہیں۔

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"ولا بأس بأن يؤاجر المسلم دارا من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر، أو عبد فيها الصليب، أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء من ذلك؛ لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك كمن باع غلاما ممن يقصد الفاحشة به، أو باع جارية ممن لا يشتريها، أو يأتيها في غير المأتى لم يلحق البائع إثم في شيء من هذه الأفعال التي يأتي بها المشتري، وكذلك لو اتخذ فيها بيعة، أو كنيسة".

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:16، ص:39، ط:دارالمعرفۃ)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال): ایک آدمی مسلمان ہونے کے باوجود ٹھیکہ شراب جو سرکار عالیہ کی طرف سے ہوتا ہے بذریعہ نیلام لے چکا ہے ، اور شراب کا عادی بھی ہے ، اور اب وہ چھوڑ بھی نہیں سکتا ، کیونکہ کافی نقصان اٹھانا پڑے گا، دو ہندوئوں کو بھی شریک کر چکا ہے ،متذکرہ بالا آدمی کے شریک ہندو کو اگر کوئی مسلمان کرایہ پر دکان دے دے جو ہمیشہ کرایہ پر رہتی ہے تو مالک دکان گنا ہگار ہوگا یا نہیں؟

(جواب: 338): مسلمان کے لئے شراب کی تجارت حرام ہے ۔ کسی حال میں بھی جائز نہیں ہوسکتی ، ہندوئوں کو شریک کر لینے سے اس کا گناہ مرتفع نہیں ہوسکتا، شراب فروشی کے لئے مسلمان یا مسلمان کے شریک کو دکان کرایہ پر دینا بھی مکروہ تحریمی ہے ۔

ہاں غیر مسلم کو خاص اس کی تجارت کے لئے دکان کرایہ پر دی جائے اور وہ شراب فروخت کرے تو مضائقہ نہیں۔"

محمد کفایت اللہ غفرلہ،دہلی، الجمعیۃ، مؤرخہ:26جون، سن 1927ء

(کتاب المعاش، ملازمت اور اجارہ، عنوان:شراب کی تجارت کے لیے دوکان کرایہ پر دینا، ج:7، ص:332، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں