کیا رمضان میں مسلمانوں کی بستی میں پورے محلے میں نعت خوانی کرکے لوگوں کو سحری کے لئے بیدار کیا جاتا ہے ، یہ عمل شرعاً بدعت ہوگی یا مباح ؟
واضح رہے کہ اِس طرح نعت خوانی کرنا جس سے لوگوں کے کاموں میں خلل ہو، بیماروں، معذوروں کو تکلیف ہو، جائز نہیں، کیوں کہ فقہاءِ کرام نے ایسی بلند آواز سے ذکر یا تلاوتِ قرآن کریم کو منع کیا ہے، جس سے کسی کو تکلیف یا تشویش ہو؛ لہٰذا اگر سحری کے وقت مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر اتنی بلند آواز سے نعت خوانی وغیرہ کی جائے کہ اس سے لوگوں کی عبادت یا نیند میں خلل واقع ہو اور انہیں تکلیف ہو تو یہ حکمِ شریعت کی خلاف ورزی ہے، اِس سے اجتناب ضروری ہے۔اگر نعت خوانی کا مقصود لوگوں کو بیدار کرنا ہو تویہ آدابِ نعت کے بھی خلاف ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
" حدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد جميعا عن أبي عاصم، قال: عبد، أنبأنا أبو عاصم، عن ابن جريج، أنه سمع أبا الزبير، يقول: سمعت جابرا، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده."
( کتاب الإیمان ، باب بیان تفاضل الإسلام وأي أمورہ أفضل،61/1،ط: دار إحياء التراث العربي )
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفاً وخلفاً على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ".
( باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ، مطلب في رفع الصوت بالذکر660/1، ط: سعید)
فیہ ایضا :
"لايجب انتباه النائم في أول الوقت، ويجب إذا ضاق الوقت، نقله البيري في شرح الأشباه عن البدائع من كتب الأصول، وقال: ولم نره في كتب الفروع فاغتنمه اهـ.قلت: لكن فيه نظر لتصريحهم بأنه لا يجب الأداء على النائم اتفاقًا فكيف يجب عليه الانتباه."
( کتاب الصلاۃ ، قبیل مطلب في تعبُّدہ علیه الصلاۃ والسلام قبل البعثة،358/1، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101793
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن