بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شاور سے غسل کرنا


سوال

شاور سے غسل کرسکتے ہیں یا نہیں؟  اگر کر سکتے ہیں تو کیا طریقہ ہے؟

جواب

غسل میں اصلاً  سارے جسم پر پانی ڈالنا فرض ہے، خواہ کسی بھی طریقہ سے ہو، شاور سے یا کسی اور چیز سے، البتہ شاور  کے  استعمال میں  عام طور  پر  پانی کا ضیاع ہوتا ہے، نیز  کھڑے ہوکر غسل کرنے کے بجائے بیٹھ کر غسل کرنا زیادہ پسندیدہ ہے، کیوں کہ اس میں ستر زیادہ ہے، لہٰذا اگر شاور سے غسل کرنا ہو تو اسراف سے اجتناب کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ بیٹھ کر جس قدر ستر ہوسکے اس کا اہتمام کیا جائے۔

باقی غسل کا طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک تین مرتبہ دھوئے، اس کے بعد اپنی شرمگاہ کو دھوئے، پھر  اگر بدن پر کہیں نجاستِ حقیقیہ ہو تو اس کو دھو  ڈالے، پھر اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئے، پھر  سنت کے مطابق وضو کرے، سر کا مسح بھی کرے ۔ اگر فرض غسل ہے  اور روزہ نہیں ہے تو کلی کے ساتھ غرغرہ بھی کرے،  اگر کسی ایسے مقام پر غسل کر رہا ہے جہاں غسل کا پانی جمع ہوتا رہتا ہے تو غسل سے  فارغ ہونے کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر پیر دھوئے۔ اگر غسل خانہ اور بیت الخلا ایک ہی احاطے میں نہیں ہیں تو  ستر کھولنے سے پہلے وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھے، اور اٹیچڈ باتھ میں غسل کرے تو غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے دعا وغیرہ پڑھ لے، اور ستر کھولنے کے بعد زبان سے کوئی اور دعا نہ پڑھے، البتہ زبان کو حرکت دیے بغیر دل دل میں دعائیں پڑھ سکتاہے، اور  وضو کے بعد اپنے بالوں میں انگلیاں ڈال کر  تین مرتبہ سر کا خلال کرے پہلے داہنی جانب کا، پھر بائیں جانب کا اس کے بعد اپنے سر پر پانی ڈالے، پھر داہنے شانے پر پھر بائیں شانے پر اور تمام جسم کو ہاتھوں سے ملے، اسی طرح دو بار مزید تمام جسم پر اسی ترتیب سے پانی ڈالے، تاکہ تین بار پورے جسم پر پانی پہنچ جائے، اس کے بعد چاہے اپنے جسم کو کسی کپڑے اور تولیہ وغیرہ سے خشک کر لے، چاہے تو خشک نہ کرے۔(غسل کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 156):

" (وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة وقالوا: لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل فقد أكمل السنة (البداءة بغسل يديه وفرجه) وإن لم يكن به خبث اتباعا للحديث (وخبث بدنه إن كان) عليه خبث لئلا يشيع (ثم يتوضأ) أطلقه فانصرف إلى الكامل، فلايؤخر قدميه ولو في مجمع الماء لما أن المعتمد طهارة الماء المستعمل، على أنه لايوصف بالاستعمال إلا بعد انفصاله عن كل البدن لأنه في الغسل كعضو واحد، فحينئذ لا حاجة إلى غسلهما ثانيا إلا إذا كان ببدنه خبث ولعل القائلين بتأخير غسلها إنما استحبوه ليكون البدء والختم بأعضاء الوضوء، وقالوا: لو توضأ أولا لايأتي به ثانياً؛ لأنه لايستحب وضوءان للغسل اتفاقا، أما لو توضأ بعد الغسل واختلف المجلس على مذهبنا أو فصل بينهما بصلاة كقول الشافعية فيستحب (ثم يفيض الماء) على كل بدنه ثلاثاً مستوعباً من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال، وقيل: المقصود عدم  الإسراف. وفي الجواهر لا إسراف في الماء الجاري؛ لأنه غير مضيع وقد قدمناه عن القهستاني (بادئاً بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبًا، وقيل: يثني بالرأس، وقيل: يبدأ بالرأس وهو الأصح. وظاهر الرواية والأحاديث. قال في البحر: وبه يضعف تصحيح الدرر".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205201055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں