بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوبز میں کام کرنا


سوال

 مجھے شوبز میں کام کرنے کے بارے میں پوچھنا ہے کہ کیا ڈراموں میں کام کرنے سے(ایکٹنگ کرنےسے ) آنے والی آمدنی حلال ہوگی؟ اور کیا ایسے مرد کا رشتہ قبول کرنا  چاہیے، جب کہ  ہمیں معلوم ہو کہ وہ شوبز میں کام کرنا چاہتا ہے اور اس کی کمائی حرام ہوگی تو ہم اس کو استعمال نہیں کرسکتے تو  پھر اولاد کے اخراجات کہاں سے پورے  کیے جائیں گے۔

اس بارے میں میری مکمل رہنمائی  کیجیے؛ کیوں کہ  میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور لڑکے کا تعلق سید گھرانے سے ہے اور  اس کے گھر والے بھی مذہبی ہی ہیں، مگر لڑکا یہ کام کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس بات پر انکار کیا ہے کہ اگر وہ ایک معمولی کام بھی کرے گا میں تب بھی رشتہ کرنے کو تیار ہوں مگر شوبز سے نا ہو ۔ اس پر مجھے سننا پڑا کہ آپ ثابت کریں؛ اس لیے  آپ کی جانب سے رہنمائی کی طلب گار ہوں !

جواب

واضح رہے کہ شوبز انڈسٹری میں کام کرنے کی وجہ سے آدمی مختلف قسم کے گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہے مثلاً اجنبی اور عورتوں کے ساتھ میل جول، تصویر سازی،گانا بجانا،فحاشی اور تعاون علی الاثم وغیرہ ،جن کی وجہ سے شوبز انڈسٹری میں کام کرنا ناجائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی  حلال نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو وعلى هذا الحداء وقراءة الشعر وغيره ولا أجر في ذلك وهذا كله قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد (رحمهم الله تعالى)."

(الفتاوى الهندية،كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع، 449/4، ط:دارالفكر بيروت)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان طاعة لله تعالى؛ لأن البر هو طاعات الله. وقوله تعالى: ولا ‌تعاونوا على الأثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(مطلب البيان من الله تعالى على وجهين، 214/2، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنه) قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إن أشد الناس عذاباً عند اللہ یوم القیامة المصورون."

(الجامع الصحيح للبخاري، كتاب اللباس،باب عذاب المصورين يوم القيامة، رقم الحديث:5950)

مرقاۃالمفاتیح لملاعلی قاری میں ہے:

"وعنه (ابن مسعود)عن النبي( صلى الله عليه وسلم) قال المرأة عورة فإذا خرجت ‌استشرفها الشيطان."

(كتاب النكاح، باب النظر، ج:2054/5، ط:دار الفكربيروت)

فتاوی بزازیہ (علی ہامش الہندیہ) میں ہے:

"ولايأذن بالخروج إلى المجلس الذي يجتمع فيه الرجال و النساء وفيه من المنكرات."

(كتاب النكاح، الفصل الثامن عشر في الحظر والإباحة، 157/4،  ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں