بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر، والدہ اور تین بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

 اگر کسی عورت کا انتقال ہوجائے اس کا مال کس حساب سے تقسیم کیا جائے گا؟ اس کے (شرعی )  ورثاء میں شوہر، والدہ اور تین بیٹیاں موجود ہوں۔

2: جو مال کا حصہ والد کی وراثت سے مرحومہ بیٹی کو ملے تو اس مال میں سے اس کی زندہ والدہ کو حصہ واپس دیا جائےگا یا نہیں؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کی ملکیت میں جتنی بھی چیزیں تھیں وہ مرحومہ کا ترکہ شمار ہوں گے، اور مرحومہ کے شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کی جائیں گی، جس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو کل مال سے اس کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس سے ایک تہائی مال میں سے ادا کرنے کے بعد باقی ماندہ کل جائیداد/ ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 39 حصوں میں تقسیم کر کے مرحومہ کے شوہر کو9 حصے اور مرحومہ کی والدہ کو 6 حصے اور مرحومہ کی ہر ایک بیٹی کو8 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے: 

مرحومہ12/ 13 /39

شوہروالدہبیٹیبیٹیبیٹی
328
96888

یعنی: سوروپے میں سے 23.077  روپے مرحومہ  کے شوہر کو، 15.38 روپے مرحومہ کی والدہ کو اور 20.51 روپے  مرحومہ کی ہر ایک بیٹئ کو ملیں گے۔

2- مرحومہ کو جووالد کی وراثت سے حصہ ملا ہےوہ اب مرحومہ کےانتقال کے بعد مرحومہ کی متروکہ اشیاء کے ساتھ مل کر مرحومہ کا ترکہ شمار ہو گا، اور مرحومہ کی والدہ سمیت دیگر تمام شرعی ورثاء میں مندرجہ بالا طریقے کے مطابق  تقسیم ہو گا ۔

حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"(وعلى الرجل تجهيز امرأته) أي تكفينها ودفنها عند أبي يوسف لو كانت معسرة وهذا التخصيص مختار صاحب المغني والمحيط والظهيرية اه . ويلزمه أبي يوسف بالتجهيز مطلقا أي ( ولو ) كان الزوج ( معسرا ) وهي موسرة (في الأصح) وعليه الفتوى وقال محمد ليس عليه تكفينها لانقطاع الزوجية من كل وجه".

(باب أحكام الجنائز ، ص: 225)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں