بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے لڑکی کے لیے شوہر سے اجازت لینے کا حکم


سوال

نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہوئی ہو اور کہیں باہر جانا ہو تو شوہر کی اجازت کے بنا  جاناجائز ہے؟

جواب

نکاح ہونے کے بعد  رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی  ہی سے ممکن ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر (مثلاً رہائش کا انتظام نہ ہونے  وغیرہ) کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے۔

اور نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے لیے شوہر اور بیوی کی ہے،  چاہے رخصتی نہ  ہوئی ہو۔ البتہ رخصتی سے قبل لڑکی کو کہیں جانا ہو تو اگر شوہر کی اجازت کے بغیر جانے سے شوہر اس کو ناپسند کرتا ہو  تو شوہر سے اجازت لے کر جانا چاہیے،اور اگر شوہر ناپسند نہیں کرتا تو پھر اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے: 

"حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: يا علي، ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئاً".

(باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، ج: ۱، صفحہ: ۲۳۸، رقم الحدیث: ۱۷۱، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ينعقد بالإيجاب والقبول وضعًا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلًا كان كالأمر أو حالًا كالمضارع، كذا في النهر الفائق. فإذا قال لها: أتزوجك بكذا، فقالت: قد قبلت يتم النكاح وإن لم يقل الزوج قبلت، كذا في الذخيرة".

(الباب الثاني فيما ينعقد به النكاح وما لا ينعقد به، ج: ۱، صفحۃ: ۲۷۰، ط: دار الفکر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها  أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلةً أو غاسلةً لا فيما عدا ذلك.(قوله: فيما عدا ذلك) عبارة الفتح: وأما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج..." 

(کتاب النکاح ، ج: ۳، ص: ۱۴۵، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں