بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کو حقوق زوجیت کی ادائیگی سے منع کرنا/ غسل جنابت میں تاخیر


سوال

زید کی اہلیہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے میں سستی کرتی ہے اور اگر کبھی مباشرت کر بھی لے تو غسل کرنے میں سستی کرتی ہے یہاں تک کہ کئی دفعہ تین دن اور چار دن بھی گزر جاتے ہیں جبکہ زید ایک سلجھا ہوا اور نفیس طبیعت کا ما لک ہے اور زید کے کئی بار سمجھانے اور کئی بار تنبیہ کرنے کے باوجود یہ رویہ برقرار رکھا ہوا ہے اب زید نے اسے یہ دھمکی دی کہ تین مہینے کی مہلت ہے اگر تو نہ مانی تو میں تجھ سے علیحدگی کر لوں گا اور طلاق کی دھمکی دی لیکن زید کا ارادہ بالکل نہیں وہ یہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسکی اہلیہ فرائض میں کوتاہی سے باز اجائے گزارش ہے کہ کوئی حل بتائیں کیا شرعی طور پر زید کو طلاق کا جائز حق ہے یعنی زیادتی یا گناہ تو نہیں ہوگا؟ اور اگر زید اہلیہ کو طلاق کے بجائے تلاک یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہ جن کا معنیٰ طلاق نہیں زید کو علم ہے ان الفاظ کے ذریعے دھمکا سکتا ہے اس سے طلاق تو واقع نہیں ہوگی ؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی کی ذمہ شوہر کے ہر جائز اور مباح امر کی بقدر ِطاقت اطاعت واجب ہے، انہی کاموں میں سے  ایک یہ ہےکہ شوہر کی جسمانی ضرورت و خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے، شرعی عذر ( جیسے ایام، بیماری، یا شوہر کا حدِ اعتدال سے زیادہ ہم بستر ہونا جس کی بیوی میں طاقت نہ ہو ) کے  بغیرعورت کے لیےشوہرکو ہم بستری سے روکنا شرعاً جائز نہیں،احادیثِ مبارکہ میں ہم بستری کے لیے   شوہر کے بلانے پر بیوی کے نہ جانے پر سخت وعیدیں آئی ہیں،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:  "جب کسی مرد نےاپنی بیوی کو ہم بستری کے لیے بلایا اور اس نے انکار کیا اور شوہر نے رات غصے میں گزاری تو فرشتے صبح تک اس بیوی پر لعنت بھیجتے ہیں" ۔ 

نیز غسلِ واجب میں جس قدر جلدی طہارت حاصل کرلی جائے بہتر ہے، تاہم نماز کے وقت تک  تاخیر کرنے سے گناہ نہیں ہوگا، اور اتنی تاخیر کرنا کہ نماز قضا ہوجائے، جائز نہیں ہے، اور یہ حکم مرد وعورت دونوں کے لیے ہے؛ لہذا غسلِ جنابت میں  تین دن تک تاخیر کرنا جائز نہیں  ہے اور ان دنوں میں جو نمازیں قضا ہوئیں ہیں ان کو قضا کرنے کے ساتھ توبہ واستغفار کرنا بھی ضروری ہے۔

لہذا  سائل  کو چاہیے کہ بیوی کو حکمت کے ساتھ سمجھائے، اگر وہ پھر بھی ہم بستری کرنے نہ دے، جب کہ اسے کوئی شرعی عذر بھی نہ ہو تو شوہر اس کے  گھروالوں کے ذریعہ معاملہ حل کرانے کی کوشش کرے،اگر پھر بھی معاملہ حل نہ ہو تو سائل کے لیے گنجائش ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دےکر دوسری جگہ شادی کرے۔ سمجھانےکے باوجود نہ ماننے پر طلاق دینے کی صورت میں  شوہر زیادتی کرنے والا نہ ہو گا، اور نہ ہی گناہ گار ہو گا۔

واضح رہے کہ اگر شوہر طلاق کے سلسلہ میں الفاظِ مصحفہ یعنی تبدیل شدہ الفاظ استعمال کرے، مثلاً طلاق کے بجائے "طلاغ"،"تلاغ"،"تلاک"وغیرہ کہے تو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لیکن جو الفاظ طلاق سے مناسبت نہ رکھتے ہوں  مثلاً تراک وغیرہ توایسے الفاظ کےذریعے ڈرانے دھمکانے سے اگرچہ طلاق نہ ہوگی۔تاہم اس میں بے احتیاط کی ضرورت ہے طلاق ،یا الفاظ مصحفہ کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کے بجائے کوئی اور صورت اختیار کی جائے۔

حدیث شریف میں ہے:

"أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه ‌فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح»."

 (كتاب بدء الخلق،ج:4،ص:116،رقم الحديث،ط:المطبعة الكبرى الأميرية،ببولاق مصر)

ترجمہ: "جب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک سارے فرشتہ اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔"

وفیہ ایضاً:

"عن أبي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا باتت المرأة ‌مهاجرة فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع»."

(كتاب النكاح،‌‌باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها،ج:7،ص:30،الرقم:5194،ط:المطبعة الكبرى الأميرية،ببولاق مصر)    

" ترجمہ: جب کوئی عورت اپنے شوہر کے بستر چھوڑ کر رات گزارتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔"

وفیہ ایضاً:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده، ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها، فتأبى عليه، إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى ‌يرضى ‌عنها»."

(صحیح مسلم، كتاب النكاح،باب تحريم امتناعها من فراش زوجهاج:2،ص:1060،رقم الحديث:1436،ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)

ترجمہ: "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.(قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به." 

(باب القسم بين الزوجات،ج:3،ص:208،ط:سعيد)

فتاوى ہنديہ میں ہے:

"الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لايأثم، كذا في المحيط.قد نقل الشيخ سراج الدين الهندي الإجماع على أنه لايجب الوضوء على المحدث والغسل على الجنب والحائض والنفساء قبل وجوب الصلاة أو إرادة ما لايحل إلا به، كذا في البحر الرائق. كالصلاة وسجدة التلاوة ومس المصحف ونحوه، كذا في محيط السرخسي".

(الباب الثالث في المياه وفيه فصلان،الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ، ج: ۱، ص: ۱۶، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال : إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."(قوله وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر. قلت: ومنه في عرف زماننا: تكوني طالقا، ومنه: خذي طلاقك فقالت أخذت، فقد صرح الوقوع به بلا اشتراط نية كما في الفتح. (قوله ويدخل نحو طلاغ وتلاغ إلخ) أي بالغين المعجمة. قال في البحر: ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة فزاد على ما هنا ثلاثا. وزاد في النهر إبدال القاف لاما. قال ط: وينبغي أن يقال إن فاء الكلمة إما طاء أو تاء واللام إما قاف أو عين أو غين أو كاف أو لام واثنان في خمسة بعشرة تسعة منها مصحفة، وهي ما عدا الطاء مع القاف اهـ. (قوله أو ط ل ق) ظاهر ما هنا ومثله في الفتح والبحر أن يأتي بمسمى أحرف الهجاء والظاهر عدم الفرق بينها وبين أسمائها."

(کتاب الطلاق ، باب صریح الطلاق، ج: 3، صفحہ: 246 ،247 ،248، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں