بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوقیہ شکار کرنے کا حکم


سوال

کیا شوق کے لیے شکار کرنا ناجائز ہے ؟ شکار کے وقت جانور یا پرندے کو کسی مخصوص حصہ پر مارا جائے یا جہاں مرضی نشانہ لیا جا سکتا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پرندوں اور جانوروں کو کسی فائدہ مثلاً کھانے یا پالنے یا جانور کے ضرر سے بچنے کے لئے شکار کرنا جائز ہے، تاہم مذکورہ غرض کے علاوہ بے مقصد محض شوق کے لئے شکار کرنا جائز نہیں ہے،حدیث شریف میں بے مقصد شکار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"عن صالح بن دينار عن عمرو بن الشريد قال سمعت الشريد يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : من قتل عصفورا عبثا عج إلى الله عز و جل يوم القيامة يقول يا رب إن فلانا قتلني عبثا ولم يقتلني لمنفعة".

(سنن النسائی، کتاب الضحایا، من قتل عصفورا بغير حقها، رقم الحدیث:4446، ج:7، ص:239، ط:مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ)

ترجمہ:" عمرو بن شرید فرماتے ہیں کہ میں شرید کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا : کہ جس شخص نے چڑیا بے مقصد شکار کی، تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے گریہ کرےگی، کہے گی کہ اے میرے رب فلان نے مجھے بغیرغرض کے قتل کیا، اور مجھے کسی فائدہ کی غرض سے نہیں مارا۔"

نیز شکار میں جانور کو اس کے کسی بھی حصہ پر نشانہ مارنا اور زخمی کرنا جائز ہے،کسی مخصوص جگہ سے جگہ زخمی کرنا ضروری نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو مباح) بخمسة عشر شرطا مبسوطة في العناية، وسنقرره في أثناء المسائل (إلا) لمحرم في غير المحرم أو (للتلهي) كما هو ظاهر.

وفي مجمع الفتاوى: ويكره للتلهي، وأن يتخذ خمرا وأقره في الشرنبلالية".

(کتاب الصید، ج:6، ص:461، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں