بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سکول کے استاذ سے ایڈانس میں سیکورٹی کے طور پر رقم لینا


سوال

ہمارا پرائیویٹ سکول ہے، ہم کسی بھی ٹیچر کو اس ایگریمنٹ کے ساتھ رکھتے ہیں کہ وہ سیکوریٹی کے طور پر ہمارے پاس اپنی ایک ماہ کی تنخواہ رکھوائے جو کہ اسے اس صورت میں ملے گی، جب  کہ وہ ہمارے ہاں سے چھوڑنے سے ایک ماہ پہلے ہمیں اپنے جانے  کے بارے میں بتائے گا ، کیا اب اگر کوئی اس ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور چھوڑ نے سے  ایک ہفتہ پہلے بتاتا نہیں ہے کیا ہمیں اسے وہ تنخواہ جو ہم نے  سیکوریٹی کے طور پر رکھی  ہے، وہ  بھی دینی ہوگی؟ وضاحت کردیں ۔

 

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  مذكوره ادارے کا بچوں کے اسباق میں حرج سے بچنے کے لیے اساتذہ کا تقرر اس شرط پر کرنا کہ اگر  اساتذہ مزید کام کرنا نہیں چاہتے تواستعفی دینے سے ایک ماہ قبل ادارہ کو مطلع کرنے کے پابند ہوں  گے ،یہ شرط (اگرچہ  عرف کے اعتبار سے ) شرعًا جائز ہے  اور  اس شرط  کی بنیاد پر  اساتذہ  ادارہ چھوڑنے سے پہلے پیشگی  اطلاع کرنے کے پابند ہوں گے،لیکن اس شرط کی خلاف ورزی کی بنیاد پر ادارہ کے لیے  سکیورٹی کے نام پر اساتذہ کی جو رقم لی ہے اسے  روکنا شرعًا جائز نہیں ہے،باقی  ادارہ اور اساتذہ کے درمیان عقد اجارہ جب  ماہانہ یا سالانہ  تنخواہ کی بنیاد پر  طے ہے تو مدت اجارہ مکمل ہونے کی صورت میں دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ کام جاری رکھنے کا پابند نہیں ہے،اور مقررہ مدت پورا ہونے سے پہلے کسی معتبر ومعقول عذر کے بغیر کسی  کے لیے عقدِ اِجارہ فسخ کرنا جائزنہیں ۔

اساتذہ سے پہلے رقم لے کر سیکورٹی کے طور اس  کو کرایہ دار کے زر ضمانت پر قیاس کرنا شرعًا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ زرِ  ضمانت اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اگر کرایہ دار کرایہ ادا نہ کرسکے یا اس کی غفلت یا تعدی سے دکان/مکان میں کوئی نقصان ہوجائے تو اس رقم سے وہ نقصان پورا کیا جاسکے،اس کے علاوہ تو زر ضمانت بھی روکنا شرعًا جائز نہیں ہے،اور اس رقم کا  مالک استاد ہی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الإجارة ‌تنقض ‌بالأعذار عندنا وذلك على وجوه إما أن يكون من قبل أحد العاقدين أو من قبل المعقود عليه وإذا تحقق العذر ذكر في بعض الروايات أن الإجارة لا تنقض وفي بعضها تنقض، ومشايخنا وفقوا فقالوا: إن كانت الإجارة لغرض ولم يبق ذلك الغرض أو كان عذر يمنعه من الجري على موجب العقد شرعا تنتقض الإجارة من غير نقض."

(كتاب الإجارة، الباب التاسع عشر في فسخ الإجارة بالعذر، ج:4، ص:458، ط:رشيدية)

ہدایۃ شرح بدایۃ المبتدي میں ہے:

"‌وتفسخ ‌الإجارة ‌بالأعذار" ‌عندنا."

(‌‌‌‌كتاب الإجارات، باب فسخ الإجارة، ج:3، ص:247، ط:دار احياء التراث العربي بيروت)

فتح القدیر میں ہے:

"لا ‌يستوجب ‌الأجر ‌قبل الفراغ لما بينا. قال: (إلا أن يشترط التعجيل) لما مر أن الشرط فيه لازم."

(‌‌كتاب الإجارات، باب الأجر متى يستحق، ج:9، ص:74، ط: دار الفكر)

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"السادسة العادة المحکمة......واعلم ان العادة العرف رجع الیه فی مسائل کثیرة حتی جعلوا ذلک اصلا........ الخ."

(القاعدة السادسة العادة محكمة، ج:1، ص:295، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ ہے: 

"قالوا الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل والأجير ‏الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه ‏لاستحقاق الأجر وبعضهم قالوا الأجير المشترك من يتقبل العمل من غير واحد ‏والأجير الخاص من يتقبل العمل من واحد‎…‎‏ والأوجه أن يقال الأجير المشترك ‏من يكون عقده واردا على عمل معلوم ببيان عمله والأجير الخاص من يكون ‏العقد واردا على منافعه ولا تصير منافعه معلومة إلا بذكر المدة أو بذكر ‏المسافة. كذا في التبيين.‏"

 (كتاب الإجارة، الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك، ج:4، ص:500، ط: رشیدية)‏

بنایہ میں ہے: 

"استأجر إنسانا ليعلم غلامه أو ولده شعرا أو أدبا أو حرفة مثل الخياطة ونحوها ‏فالكل سواء إن بين المدة سواء بأن استأجره شهرا ليعلمه هذا العلم يجوز ويصح ‏وينعقد العقد على المدة حتى تستحق الأجرة فعلم أو لم يتعلم إذا سلم الأستاذ ‏نفسه لذلك أما إذا لم يبين المدة فينعقد لكن فاسدا، حتى لو علم استحق أجر ‏المثل وإلا فلا.‏وكذلك تعلم سائر الأعمال كالخط والهجاء والحساب على هذا، ولو شرط عليه ‏أن يحذقه في ذلك العمل فهو غير جائز، لأن التحذيق ليس في وسع المعلم.‏"

 (‌‌كتاب الإجارات، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، ج:10، ص:282، ط: دار الكتب العلمية)‏

مجمع الأنهر میں ہے :

"وفي البحر: ولایکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذهب".

(مجمع الأنهر: كتاب الحدود، فصل في التعزير،ج:1، ص:609،  ط: دار إحياء التراث العربي)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"و تكون الإجارة صحيحة بالشروط الآتية والشروط فيها معتبرة:1 - إذا كانت مما يقتضيه العقد.2 - إذا كانت متعارفةً.

وتكون الإجارة صحيحة مع الشرط الآتي والشرط لغو.1 - إذا لم يكن فيه نفع لأحد العاقدين.

وتكون الإجارة فاسدة إذا وقع فيه شرط مفسد للبيع."

(الکتاب الثانی الاجارۃ،الباب الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالإجارة،الفصل الرابع في فساد الإجارة وبطلانها،ج1،ص511،ط؛دار الجیل)

وفیہ ایضاً:

"(المادة 469) تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة مثلا لو استأجر أحد دابة على أن يركبها إلى محل ثم ركبها ووصل إلى ذلك المحل يستحق آجرها الأجرة.

تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة أي باستيفاء المنفعة المعقود عليها في الإجارة كلها أو بعضها أو إيفاء الأجير العمل الذي استؤجر لأجله وإتمامه؛ لأنه بذلك تتحقق المساواة وتلزم الأجرة سواء أكانت الإجارة صحيحة أو فاسدة، إلا أنه يلزم في الإجارة الصحيحة الأجر المسمى وفي الإجارة الفاسدة أجر المثل."

(الکتاب الثانی الاجارۃ،الباب الثالث في بيان مسائل تتعلق بالأجرة،الفصل الثاني المسائل المتعلقة بسبب لزوم الأجرة،ج1،ص532،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101723

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں