بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہرکی اجازت کے بغیراس کےمال میں تصرف کاحکم


سوال

میرے شوہر صاحب استطاعت ہیں، اچھا خاصا کماتے ہیں، ماں باپ بہن بھائیوں پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں ،لیکن جب میری اور بچوں کی باری آتی ہے ،تو کبھی کبھی کنجوسی کر جاتے ہیں ،مجھے جیب خرچ بالکل نہیں دیتے ،البتہ ساتھ لے جا کر شاپنگ کروا دیتے ہیں، کبھی کبھار  ملنے جلنے والوں میں سے کہیں لین دین کرنا ہو، تومجھے پیسے نہیں دیتے، میں اپنی عیدی کے پیسوں سے کرتی ہوں، لیکن وہ بھی جلدی ختم ہو جاتے ہیں، تو کیا میں ان کے رکھے پیسوں میں سے ان کو بتاۓ بغیر ،ضروری لین دین- مثلاً کسی بہن بھائی کو سالگرہ پر تحفہ دے دیا ،یا کسی جاننے والی فیملی کے ہاں بچے کی پیدائش پر کچھ دےسکتی ہوں؟

جواب

واضح رہےکہ جوچیزیں بیوی کی  ضرورت میں داخل ہو،مثلاً کھانا،پینا لباس وغیرہ ،شوہرپربیوی کےلیےوہ چیزیں حسبِ استطاعت متوسط درجہ کی مہیاکرناضروری ہے،اورجوچیزیں ضرورت میں داخل نہ ہوں ،شوہرپر اس کامہیاکرنالازم نہیں ہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں اگرشوہرخودسائلہ کےلیےضرورت کےسامان کی شاپنگ کروادیتے ہیں ،توسائلہ کاشوہراپنی ذمہ داری سےبری ہوجائیں گے،اورتحفہ تحائف،اوربچے کی پیدائش پرکچھ دینا،سائلہ کی بنیادی  ضروریات میں نہیں آتا؛لہذاشوہران اخراجات کاپابندنہیں ہے،تاہم اگرشوہرکی استعدادہو،توشوہرکےلیےبیوی کی دل جوئی کرنی چاہئے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة.

اهـ[تنبيه] صرحوا ببيان اليسار والإعسار في نفقة الأقارب ولم أر من عرفهما في نفقة الزوجة، ولعلهم وكلوا ذلك إلى العرف والنظر إلى الحال من التوسع في الإنفاق وعدمه."

[كتاب الطلاق،باب النفقة،٥٧٤/٣،ط:سعيد]

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي» ، وقيل المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في، قوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله عز وجل أعلم."

[كتاب النكاح،فصل المعاشرة بالمعروف، ٣٣٤/٢، ط:دارالكتب العلمية]

الجوہرۃ النیرہ میں ہے:

"ويجب عليه أن يعطيها ما تفترشه على قدر حال الزوج فإن كان موسرا وجب عليه طنفسة في الشتاء ونطع في الصيف وعلى الفقير حصير في الصيف ولبد في الشتاء ولا تكون الطنفسة والنطع إلا بعد أن يفترش الحصير ويجب لها ما تتنظف به ويزيل الوسخ كالمشط والدهن والسدر والخطمي والأشنان والصابون على عادة أهل البلد وأما الخضاب والكحل فلا يلزمه بل هو على اختياره وأما الطيب فيجب عليه منه ما يقطع به السهوكة لا غير ويجب عليه ما يقطع به الصنان ولا يجب عليه الدواء للمرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصاد ولا الحجام."

[كتاب النفقات،84/2،ط:المطبعة الخيرية]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں