بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر پر بیوی کی طرف سے قربانی واجب نہیں


سوال

بیوی کےپاس چار لاکھ روپیہ ہے، لیکن وہ کسی کو  کاروبار کے  لیے دیے ہوئے ہیں،  اب میری بیوی کہتی ہے کہ تم میری طرف سے قربانی کرو ۔یاد رہے کہ بیوی کا مجھ پر چار تولہ سونا بھی قرض یعنی میں نے دینا ہے ۔اب کیا مجھ پر لازم ہے کہ بیوی کی طرف سے قربانی کرو ں؟ اگر میں نے کہہ دیا کہ میرے پاس وسعت نہیں تو پھر کیا ہوگا، مطلب قربانی نہ کرنے کا وبال کس پر پڑے گا؟

جواب

واضح رہے کہ ہر وہ شخص جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہو، عید الاضحی کے ایام میں اس پر قربانی کرنا واجب ہوتی ہے، اور اس وجوب کا تعلق اسی سے ہوتا ہے، یعنی  قربانی خود اسے ہی کرنا ضروری ہوتا ہے، کسی اور پر اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں ہوتا، لہذا صورتِ  مسئولہ میں بیوی پر اپنی طرف سے خود قربانی واجب ہوگی، اس  کی طرف سے قربانی کرنا شوہر پر واجب نہیں، لہذا اگر شوہر اس کی طرف سے قربانی نہ کرے تو  وہ گناہ گار نہ ہوگا،  البتہ اگر شوہر کو وسعت ہو  اور وہ اپنی بیوی کی طرف سے اس کی اجازت سے قربانی کرنا چاہے تو کر سکتاہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة... والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره ... فعليه الأضحية وإلا فلا، كذا في الظهيرية."

( كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ٥ / ٢٩٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں