ایک آدمی نے بیوی سے کہا: میں نے تجھے طلاق دی طلاق دی طلاق دی ۔ پھر اس آدمی نے کہا کہ میں نے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا، دوسری اور تیسری مرتبہ سے میری مراد محض تاکید تھی ۔اس آدمی کی بیوی کو کتنی طلاقیں واقع ہوئی؟
کیا اس کی نیت کا اعتبار ہوگا ؟ اگر ہوگا تو کیوں جب کہ صریح طلاق ہے؟
1۔ صورتِ مسئولہ میں بیوی نے اگر خود تین طلاق سنی ہوں یا نا قابلِ تردید شواہد سے اسے تین طلاق دیے جانے کی خبر موصول ہوئی ہو تو ایسی صورت میں بیوی کی حیثیت چوں کہ قاضی کی سی ہوتی ہے، لہذا اسے ظاہر ( یعنی تین طلاق کے وقوع ) پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مسئولہ صورت میں بیوی کے لیے شوہر کو اپنے اوپر قدرت نہ دینا لازم ہوگا۔
2۔ شوہر کی نیت کا دیانۃً اعتبار ہوگا، قضاءً اعتبار نہ ہوگا۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوي الحامدية میں ہے:
"(سُئِلَ) فِي رَجُلٍ قَالَ لِزَوْجَتِهِ: رُوحِي طَالِقٌ وَكَرَّرَهَا ثَلَاثًا نَاوِيًا بِذَلِكَ جَمِيعِهِ وَاحِدَةً وَتَأْكِيدًا لِلْأُولَى وَزَجَرَهَا وَتَخْوِيفَهَا وَهُوَ يَحْلِفُ بِاَللَّهِ الْعَظِيم أَنَّهُ قَصَدَ ذَلِكَ لَا غَيْرَهُ، فَهَلْ يَقَعُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ وَاحِدَةٌ رَجْعِيَّةٌ دِيَانَةً حَيْثُ نَوَاهَا فَقَطْ، وَلَهُ مُرَاجَعَةُ زَوْجَتِهِ فِي الْعِدَّةِ بِدُونِ إذْنِهَا حَيْثُ لَمْ يَتَقَدَّمْ لَهُ عَلَيْهَا طَلْقَتَانِ؟
(الْجَوَابُ) : لَايُصَدَّقُ فِي ذَلِكَ قَضَاءً؛ لِأَنَّ الْقَاضِيَ مَأْمُورٌ بِاتِّبَاعِ الظَّاهِرِ، وَاَللَّهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِرَ، وَإِذَا دَارَ الْأَمْرُ بَيْنَ التَّأْسِيسِ وَالتَّأْكِيدِ تَعَيَّنَ الْحَمْلُ عَلَى التَّأْسِيسِ، كَمَا فِي الْأَشْبَاهِ، وَيُصَدَّقُ دِيَانَةً أَنَّهُ قَصَدَ التَّأْكِيدَ وَيَقَعُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ طَلْقَةٌ وَاحِدَةٌ رَجْعِيَّةٌ دِيَانَةً حَيْثُ نَوَاهَا فَقَطْ وَلَهُ مُرَاجَعَتُهَا فِي الْعِدَّةِ بِدُونِ إذْنِهَا حَيْثُ لَمْ يَتَقَدَّمْ لَهُ عَلَيْهَا طَلْقَتَانِ؛ لِأَنَّ رُوحِي طَالِقٌ رَجْعِيٌّ، كَمَا فِي الْفَتَاوَى الْخَيْرِيَّةِ وَالتُّمُرْتَاشِيِّ وَغَيْرِهِمَا، وَأَمَّا رُوحِي فَقَطْ فَإِنَّهُ كِنَايَةٌ إذْ هُوَ كَاذْهَبِي كَمَا صَرَّحَ بِهِ صَاحِبُ الْبَحْرِ، لَكِنْ لَايُصَدَّقُ أَنَّهُ قَصْدًا لِتَأْكِيدٍ إلَّا بِيَمِينِهِ، لِأَنَّ كُلَّ مَوْضِعٍ كَانَ الْقَوْلُ فِيهِ قَوْلَهُ إنَّمَا يُصَدَّقُ مَعَ الْيَمِينِ لِأَنَّهُ أَمِينٌ فِي الْإِخْبَارِ عَمَّا فِي ضَمِيرِهِ وَالْقَوْلُ قَوْلُهُ مَعَ يَمِينِهِ، كَمَا فِي الزَّيْلَعِيِّ، وَأَفْتَى بِذَلِكَ التُّمُرْتَاشِيُّ. وَقَالَ فِي الْخَانِيَّةِ: لَوْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ، أَنْتِ طَالِقٌ، أَنْتِ طَالِقٌ، وَقَالَ: أَرَدْت بِهِ التَّكْرَارَ صُدِّقَ دِيَانَةً، وَفِي الْقَضَاءِ طَلُقَتْ ثَلَاثًا. اهـ. وَمِثْله فِي الْأَشْبَاهِ وَالْحَدَّادِيِّ، وَزَادَ الزَّيْلَعِيُّ أَنَّ الْمَرْأَةَ كَالْقَاضِي فَلَايَحِلُّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَهُ إذَا سَمِعْت مِنْهُ ذَلِكَ أَوْ عَلِمْت بِهِ لِأَنَّهَا لَاتَعْلَمُ إلَّا الظَّاهِرَ. اهـ". (١ / ٣٧) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144108201586
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن