بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے والدین وغیرہ کا بیوی کے ساتھ زیادتی کرنے کا حکم


سوال

میری شادی کو چودہ برس ہوگئے، ایک سال تک والدین میرے ساتھ ٹھیک رہے ،مگر پھر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے میری بیوی کے ساتھ زیادتیاں شروع کردیں ،خود بھی اور میری بہنوں کے ذریعے بھی ،ہر طرح سے اس کے  ساتھ زیادتی کی جاتی ،بداخلاقی، طعن و تشنیع ،مار پیٹ ،الزام تراشی ،بہتان بازی سب کچھ کرتے ،جب میں گھر آتا تو بیوی مجھ سے شکایت کرتی ،تو میں اسے دلاسے دے کر چپ کروا دیتا ،مگر کبھی بھی والدین یا گھر والوں کو اف بھی نہ کہا، یہاں تک کہ گھریلو معاملات سے تنگ آکر خودکشی تک کرنے لگا تھا، کیوں کہ میں بیوی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ نہیں کرسکتا تھا ،نہ والدین کو کچھ کہہ سکتا تھا، والدین کو سمجھانے پر الٹا وہ اور زیادہ طیش دکھاتے، شر کے اندیشے اور نافرمانی سے بچنے کے لیے  میں بیوی کو لے کر کنارہ کش ہوجاتا، تاکہ مجھ سے عدم برداشت میں والدین کی نافرمانی نہ ہوجائے ،مگر والدین پھر بھی نرم نہ ہوئے، ہر طرح سے قربانی دی، خاموشی اختیار کی ،کنارہ کشی اختیار کی، بہتان برداشت کیے، بے عزتی برداشت کی، ہر بار خود سے ہی ان کے ساتھ صلح کی، اپنے حقوق میں بھی برداشت سے کام لیا ،مجھ سے معاوضہ تک لے کر مجھے گھر سے نکال دیا،  سامان باہر نکلوا دیا ،پھر بھی اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی میں نے والدین اور بہنوں کو کچھ نہیں کہا، ہاں بہنوں کے ساتھ ترکِ تعلق کیا ،اور والدین سے نافرمانی اور شر کے ڈر سے کنارہ کشی اختیار کی ،پھر جب بھی کوئی موقع آیا ،والدین سے ملنے چلے گئے، مگر بہنوں سے نہیں۔

میں نےچھپ کر ہر طرح سے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ کہیں میری بیوی کا تو قصور نہیں ،کہیں میری غیر موجودگی میں وہ بھی ان کے ساتھ زیادتی تو نہیں کرتی ،مگر میری آنکھوں اور کانوں کو ایسا کچھ دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا، سوائے اس بات کے کہ میری بیوی ماں نہیں بن سکی ،مجھے بتائیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں میں کیا کروں؟ میری حق تلفی تو ایک طرف، جوکچھ  مجھ سے معاوضتہً والدین نے  لیا ،وہ بھی دینے سے انکاری ہوگئے، بتائیں میں کیا کروں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   سائل کے والدین اور بہنوں کا سائل کی بیوی کے ساتھ ظلم وزیادتی کرنا ،طعن وتشنیع ،مارپیٹ کرنا شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے ،اگر مظلومہ سے معافی نہ مانگی ،تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس پر گرفت ہوگی اور عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا،سائل اگر بیوی کو الگ گھر میں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے ،تو بیوی کو الگ رکھے ،تاکہ وہ ظلم وستم سے محفوظ رہے ،بیوی کو الگ رکھ کر اس کے حقوق بھی ادا کرے ،اس میں کمی کوتاہی نہ کرے ،اور والدین کے حقوق بھی ادا کرے ،اگر وہ سائل کی بیوی پر ظلم وزیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں ،تو وہ عندا للہ  اس کی سزا پائیں گے ،سائل اپنی طرف سے ادب واحترام کا معاملہ جاری رکھے اور والدین کو سمجھاتا رہے ،تاکہ ان کی آخرت خراب نہ ہو۔

اس سب کے ساتھ ان کے حق میں وہ دعا کرتا رہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:

"{رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا}."(سورہ الاسراء)

ترجمہ:’’ اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما، جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور تربیت کی۔‘‘

حدیث شریف میں ہے :

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي".

(مشکاۃ المصابیح، كتاب النكاح،باب عشرۃ النساء،ج:2،ص:973،رقم:3264،ط:المكتب الإسلامي)

"ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

(مظاہر حق، ج:3،ص:370، ط:  دارالاشاعت)

صحیح مسلم  میں ہے :

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار."

(‌‌كتاب البر والصلة والآداب،باب تحریم الظلم،ج:8،ص:18،رقم:2581،ط:دار الطباعة العامرة)

امداد الفتاوی میں ہے :

"سوال: (628) جناب نے ایک روز وعظ میں حقوق زوجین کے متعلق فرمایاتھاکہ زوجہ کا ایک یہ بھی حق ہے کہ اگر وہ خاوند کے والدین سے علیحدہ رہنا چاہے تواس کا منشا پورا کردینا واجب ہے اس کے ساتھ گزارش ہے کہ کلام مجید میں خدواندکریم کا یہ حکم ہے کہ سوائے شرک کے اورتمام امور میں والدین کا حکم مانو تویہ فرض ہوا، اب قابل دریافت یہ امرہے کہ والدین کی اگرمرضی نہیں ہے کہ بیوی کو ان سے علیحدہ رکھاجاوے اور زوجہ کی یہ مرضی ہے کہ ان سے علیحدہ رہے خواہ ایک ہی مکان میں ہو یاعلیحدہ مکان میں توکس طرح کرناچاہیے؟ اور اس کی بابت کیاحکم ہے؟ آیا پہلے فرض ادا کیاجائے یاواجب؟ براہ نوازش اس کی بابت مفصل تحریرفرماویں تاکہ آسانی سے سمجھ میں آجاوے۔

الجواب: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، والدین کی اطاعت ترک واجب میں نہیں اور عورت کے یہ حقوق واجب ہیں، پس اگروالدین ان کے ترک کوکہیں توان کی اطاعت نہیں۔"

(کتاب الطلاق،ج:2،ص:515،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102045

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں