بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسماعیلی عقائد سے توبہ کرنے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو گالیاں دینے والے کے ایمان اور نکاح کا حکم


سوال

میرے شوہر پہلے اسماعیلی تھے، اور سنّیوں کو پسند کرتے تھے، اور نماز روزہ سب سنّیوں کی طرح کرتے تھے، میری شادی کو چار سال ہوگئے، اور دو بچے ہیں، ہرلحاظ سےوہ بہت اچھے تھے، شادی کے وقت انہوں نے کلمہ پڑھاتھااور صحیح عقائد اپنائے تھے، تو مولانا صاحب نے ان کے عقائد کی بنیاد پر نکاح کی اجازت دیدی تھی،شوہرنے یہ بھی کہا تھا کہ چار ماہ لگاؤں گا، لیکن اب دوبارہ اسماعیلی اثرات پیدا ہوگئے اور انہوں نےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو برا بھلا کہنا شروع کیا ہے، مثلاً کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیٹ کے لئے لڑتے تھےجبکہ امام حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے، اور ایک دفعہ حضرت عمر اور حضرت معاویہ کو گالی تک بھی دی اور کہا سنّیت سنّیت نہیں ہے بلکہ یہ یزیدیت ہے، براہِ کرم آپ حضرات اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہےاسماعیلی فرقہ اسلام سے متصادم عقائد(یعنی تحریفِ قرآنِ کریم ، اپنے امام کو معبود یا نبی ماننے، امامت کو نبوت سے افضل ماننے، اپنے ائمہ کے لیے علمِ غیب کلی ثابت کرنے  کی وجہ سے دائرہ اسلام سےخارج اور کافر ہیں ۔جب تک یہ لوگ اپنے کفریات سے توبہ نہ کریں اس وقت تک ان سے کسی قسم کے تعلقات نکاح ، شادی،بیاہ وغیرہ کرنا جائز ہی نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے اسماعیلی عقائد سے توبہ کرکے اسلام قبول کرکے سائلہ سے نکاح کیا تھا تو یہ نکاح درست تھا ،تاہم اب اگر وہ  دوبارہ  اسماعیلی نظریات وعقائد  اختیار کرلے     تو  وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائےگا ،اور  سائلہ اس کے نکاح سے خودبخود خارج ہوجائے گی ۔

لیکن اگر وہ اسماعیلی عقائد کے حامل نہیں ہیں تو جو کلمات سائلہ نے نقل کیے ہیں ،ان الفاظ سے وہ گناہ گار تو ضرور ہوئے ہیں ،لیکن محض مذکورہ الفاظ کی بنیاد پر   دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوا ،  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو برابھلا کہنا بھی حرام ہے، جس پر صدقِ دل سے توبہ کرنا لازم ہے، الغرض مذکورہ شخص کے عقائد کی تفصیلات جب تک سامنے نہ آئے تو کفر کا حتمی جواب نہیں دیا جاسکتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل عليا أو يسب الصحابة فإنه مبتدع لا كافر كما أوضحته في كتابي تنبيه الولاة والحكام عامة أحكام شاتم خير الأنام أو أحد الصحابة الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام."

(كتاب النكاح، فصل فى المحرمات، ج:3، ص:46، ط:ايج ايم سعيد) 

تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانام او احد صحابۃ الکرام میں ہے:

"وأما من سب أحدا من الصحابة فہو فاسق مبتدع بالإجماع إلا إذا اعتقد أنہ مباح أو یترتب علیہ ثواب کما علیہ بعض الشیعة أو اعتقد کفر الصحابة فإنہ کافر بالإجماع فإذا سب أحد منهم فإن كان معه قرائن حالية على ما تقدم من الكفريات فكافر والا ففاسق "

(الباب الثانی:حکم سابّ احد الصحابۃ رضی اللہ تعالیٰ، ج:1، ص:367، ط:مکتبۃ محمودیۃ)

الملل والنحل للشہرستانی میں ہے:

"ثم إن الإمامية تخطت عن هذه الدرجة إلى الواقعية في كبار الصحابة طعنا وتكفيرا وأقله ظلما وعدوانا، وقد شهدت نصوص القرآن على عدالتهم والرضا عن جملتهم، قال الله تعالى: {لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ} 2 وكانوا إذ ذاك ألفا وأربعمائة، وقال الله ثناء على المهاجرين والأنصار، والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم: {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ} 3 وقال: {لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ} 4 وقال تعالى: {وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ} 5 وفي ذلك دليل على عظمة قدرهم عند الله تعالى، وكرامتهم ودرجتهم عند الرسول صلى الله عليه وسلم، فليت شعري: كيف يستجيز ذو دين الطعن فيهم، ونسبة الكفر إليهم! وقد قال النبي عليه السلام: "عشرة من أصحابي في الجنة: أبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وسعد بن أبي وقاص، وسعيد بن زيد، وعبد الرحمن بن عوف وأبو عبيدة بن الجراح" إلى غير ذلك من الأخبار الواردة في حق كل واحد".

(الباب الأول: المسلمون، الفصل السادس: الشیعۃ، الامامیۃ، ج:1، ص:164، ط:مؤسسۃ الحلبی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ)

(قوله فسخ) أي عند الإمام بخلاف الإباء عن الإسلام. وسوى محمد بينهما بأن كلا منهما طلاق وأبو يوسف بأن كلا منهما فسخ، وفرق الإمام بأن الردة منافية للنكاح لمنافاتها العصمة، والطلاق يستدعي قيام النكاح فتعذر جعلها طلاقا، وتمامه في النهر".

(کتاب النکاح، ج:3، ص:193، ط:ایج ایم سعید)

فقط والله  اعلم 


فتوی نمبر : 144305100085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں