میں دبئی میں کام کرتا ہوں اور میری بیوی اپنی امی کے ہاں رہتی ہے؛ کیوں کہ ان کی امی بیوہ ہیں اور میں نےشادی بھی اس لیے کی تھی کیوں کہ ان کا اور کوئی سہارا نہیں تھا، میری ایک سالی ہے چھوٹی، اس کی ابھی شادی ہونے والی ہے تو جب رخصتی ہوگی تو ان کے ساتھ کوئی جاتا ہے تو میری بیوی کہتی ہے میں جاؤں گی اور مجھےصحیح نہیں لگتا ان کا جانا؛ کیوں کہ ہماری ابھی اولاد بھی نہیں ہے، میں کہتا ہوں: آپ نہ جائیں، آپ کی بڑی خالہ جائیں تو اس پر ان کی امی بھی ضد کر کے بیٹھی ہیں کہ یہ جائیں گی میرے منع کرنے کے باوجود؛ کیوں کہ میں بھی چھٹی پر آؤں گا، تب اب بتائیں میں غلط کر رہا ہوں؟ کیوں کہ میرا دل دماغ اجازت نہیں دے رہا۔
رشتے اخلاق و محبت اور باہم احترام کے ساتھ چلتے ہیں، ساس ماں کی طرح ہوتی ہے، داماد بیٹے کی طرح ہوتا ہے، اس لیے آپ لوگ باہم مشورے سے ایک دوسرے کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں ۔ تاہم اگر سائل کی بیوی سائل کی اجازت کے بغیر جائے گی تو گناہ گار ہوگی۔
"فلاتخرج إلا لحق لها أو عليها أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة و لكونها قابلة أو غاسلة لا فيما عدا ذلك".
(الدر المختار مع رد المحتار:كتاب النكاح، باب المهر (3/ 145)، ط. سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144404101506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن