بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت کے بغیر چیزیں دوسروں کو دینا


سوال

میرا کرایہ کا گھر ہے،  صبح  کام پہ چلے جانے کے بعد میری بیوی اپنے والد کے گھر پر چلی جاتی ہے، وہ اپنے گھر سے والدین کے گھر پر  مجھ سے  پوچھے بغیر کچھ بھی لےجاتی ہے، جب کہ میں نے سنا ہے کہ  اس طرح کرنا صحیح نہیں ہے۔

برائے مہربانی تفصیل سے اس کی وضاحت فرمادیں ۔

آمدن کم ہونے کی وجہ سے اگر ایک کلو گوشت پکایا جائے،  تو  تین دن آرام سے گزرتے ہیں، لیکن اپنے والدین کے گھر دن میں دو  دفعہ دے دےکر ہمارے گھر کا نظام درہم  برہم کر رکھا ہے،  جو مجھے ٹینشن کا شکار کرکے میرا غصہ ابھار رہا ہے ، کبھی کبھار ٹینشن میں اس سے علیحدگی اختیار کرنے کو من کرتا ہے، جب کہ آمدن کم ہونے کی وجہ سے وہ  طعنے بھی دیتی ہے کہ میرے والدین ہی ہیں جو  اپنے داماد کو آمدن کم ہونے کی وجہ سے سہارا دے رہے ہیں ۔

برائے مہربانی کچھ حل بتادیں ،  کہ اس پریشانی سے نجات حاصل ہو۔

جواب

واضح رہے کہ  اسلام  ایک متوازن مذہب ہے، جہاں وہ صلہ رحمی  کاحکم دیتا ہے، وہیں وہ دوسروں کے مال میں بلا اجازت تصرف کرنے سے بھی روکتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کے گھر سے اس کی مملوکہ  چیز شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو دینے سے منع فرمایا ہے۔

سنن النسائيمیں ہے:

"٢٥٤٠- أخبرنا ‌إسماعيل بن مسعود قال: حدثنا ‌خالد بن الحارث قال: حدثنا ‌حسين المعلم، عن ‌عمرو بن شعيب أن ‌أباه حدثه عن ‌عبد الله بن عمرو قال: «لما فتح رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة قام خطيبا، فقال في خطبته: لا يجوز لامرأة عطية إلا بإذن زوجها»."

( كتاب الزكاة، عطية المرأة بغير إذن زوجها، ٥ / ٦٥، ط: المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا، تو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا: "کسی عورت کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں۔"

سنن الترمذيمیں ہے:

"٦٧٠- حدثنا ‌هناد ، قال: حدثنا ‌إسماعيل بن عياش ، قال: حدثنا ‌شرحبيل بن مسلم الخولاني ، عن ‌أبي أمامة الباهلي ، قال: «سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطبته عام حجة الوداع» يقول: لا تنفق امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها. قيل: يا رسول الله، ولا الطعام؟ قال: ذاك أفضل أموالنا."

( أبواب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب في نفقة المرأة من بيت زوجها، ٢ / ٤٩، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:" حضرت ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا: "عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے"، دریافت کیا گیا: اللہ کے رسول! اور کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: "یہ ہمارے مالوں میں سب سے افضل مال ہے۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"١٩٥١ - (عن أبي أمامة قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول في خطبة عام حجة الوداع) بفتح الواو وتكسر " لا تنفق " نفي وقيل: نهي، في المصابيح: ألا لا تنفق " امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها " أي صريحا أو دلالة (قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال: " ذلك ") أي الطعام " أفضل أموالنا " أي أنفسنا، وفي نسخة أموال الناس، يعني فإذا لم تجز الصدقة بما هو أقل قدرا من الطعام بغير إذن الزوج، فكيف تجوز بالطعام الذي هو أفضل."

(كتاب الزكاة، باب صدقة المرأة من مال الزوج، الفصل الثاني، ٤ / ١٣٥٨، ط: دار الفكر)

لہذا صورت مسئولہ میں شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی بھی چیز خواہ کھانے کی ہو، یا نہیں، کسی کو دینے یا  اپنے میکے لے جانے کی شرعا اجازت نہیں ہوگی، نیز  شوہر کی کم آمدنی پر طعنہ دینا بھی درست نہیں، سائل کی اہلیہ کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، رہی بات سائل کے ساس سسر جو اس کی معاونت کرتے  ہیں، یہ ان کی جانب سے تبرع و احسان ہے، جس پر انہیں اجر و ثواب  ملے گا۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں