بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا طلاق کے کنایہ الفاظ استعمال کرتے رہنا


سوال

ماضی میں اکثر شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی ہوتی ہو اور لفظ کنایہ استعمال ہوتے ہوں اور طلاق کی نیت زور وشور سے نہ ہو، پر کبھی دل میں غصے کی وجہ سے آگئی ہو، صحیح یاد نہیں پڑتا ، کیا دوبارہ نکاح کرنا چاہیے، یا توبہ کرنی چاہیے اور تعلق قائم رکھیں؟

جواب

کنائی الفاظ وہ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے نیت کے ساتھ طلاق (بائن وغیرہ) واقع ہوتی ہے اور  بسا اوقات مذاکرۂ  طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، طلاق کے باب میں استعمال کیے جانے والے الفاظ کی فہرست طویل ہے، جن میں سے بعض ایسے الفاظ بھی ہیں جن میں نیت  کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے ’’ آزاد ‘‘ یا  ’’چھوڑ دیا‘‘ وغیرہ  الفاظ، اور بعض الفاظ نیت یادلالتِ حال کے محتاج ہوتے ہیں۔

الفاظِ کنایہ میں سے چند الفاظ ملاحظہ ہوں:

"میرا تیرا تعلق ختم"، "تو میری بیوی نہیں"، "میرا تیرا کوئی رشتہ نہیں"، "میاں بیوی والا تعلق ختم کردیا"، "تو جانے تیرا کام جانے"، "اسے لے جاؤ"، "اپنے لیے کوئی اور ڈھونڈ لے"، "دفع ہو جا"، "جا نکل"، "پردہ کرلے" وغیرہ۔

اگر کسی شخص نے ایسے الفاظ لا علمی میں استعمال کیے ہوں تو ان  الفاظ  سے مرتب ہونے والے حکم کو جاننے کے لیے ان الفاظ کا معلوم ہونا ضروری ہے، ان الفاظ کے جانے بغیر جواب دینا ممکن نہیں، کیوں کہ بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جن سے نیت کے بغیر طلاق واقع ہو جاتی ہے؛ لہذا جو الفاظ ماضی میں استعمال کیے گئے ہوں وہ الفاظ  لکھ  کر جواب معلوم کر لیں، اسی کے بعد دوبارہ نکاح یا تعلق قائم کرنے کا حکم بتایا جاسکے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں