بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں کمی کرنا


سوال

اگر شوہر قوت رکھتے  ہوئے بھی بیوی کو حقِّ زوجیت سے محروم رکھے اور ایک ماہ میں فقط ایک یا دو بار اس سے ملے تو بیوی کیا کرے؟  ایسا کرنے سے کیا شوہر کو گناہ ملے گا یا نہیں؟  جب کہ اسلام میں بیوی کو سکھایا گیا ہے کہ  شوہر کو پاس آنے سے نہ  روکا جائے، ورنہ فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ میں ہم بستری  کے لیے کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی،   بلکہ یہ بات میاں بیوی کی باہمی رضامندی اور طبیعت کے  نشاط  پر چھوڑ دی گئی ہے؛  لہذا  شوہر  کو چاہیے کہ  وہ اپنی قوت  اور طاقت کے مطابق  حتی الامکان بیوی کے حقوق ادا کرنے کی  کوشش کرے، اِس میں ہرگز کوتاہی نہ کرے،  شوہر بیوی کی رعایت رکھے اور بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی رعایت رکھے ۔

 صورتِ  مسئولہ میں اگر شوہر مہینے میں   متعدد مرتبہ حقوقِ زوجیت کی   طاقت اور قدرت رکھتا  ہو تو اُس کو  چاہیے کہ بیوی کی رعایت رکھتے ہوئے   اس کی تعداد میں اضافہ کرے، نیز بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کا اہتمام کرے ؛تا کہ شوہر کی طبیعت اُس کی طرف مائل ہو۔ تاہم اگر شوہر ہر ماہ دو مرتبہ حقوقِ زوجیت ادا کرتا ہے  اور اس سے زیادہ مرتبہ  حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں اس کے لیے حرج ہو تو وہ بیوی کی حق تلفی کرنے والا نہیں ہوگا اور اُسے گناہ نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 202):

"و يسقط حقّها بمرة و يجب ديانةً أحيانًا و لايبلغ الإيلاء إلا برضاها، و يؤمر المتعبد بصحبتها أحيانًا، و قدّره الطحاوي بيوم و ليلة من كل أربع لحرة و سبع لأمة. و لو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، و الرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها، نهر بحثًا."

وفيه أيضًا (3/ 203):

"في الفتح: فأما إذا لم يكن له إلا امرأة واحدة فتشاغل عنها بالعبادة أو السراري اختار الطحاوي رواية الحسن عن أبي حنيفة أن لها يومًا و ليلة من كل أربع ليال و باقيها له؛ لأنّ له أن يسقط حقّها في الثلاث بتزوج ثلاث حرائر، و إن كانت الزوجة أمةً فلها يوم و ليلة في كل سبع. و ظاهر المذهب أن لايتعين مقدار؛ لأنّ القسم معنى نسبي و إيجابه طلب إيجاده و هو يتوقف على وجود المنتسبين فلايطلب قبل تصوره، بل يؤمر أن يبيت معها و يصحبها أحيانًا من غير توقيت. اهـ.

و نقل في النهر عن البدائع أن ما رواه الحسن هو قول الإمام أولًا ثم رجع عنه وأنه ليس بشيء (قوله: وسبع لأمة) لأن له أن يتزوج عليها ثلاث حرائر فيقسم لهن ستة أيام و لها يوم (قوله: نهر بحثًا) حيث قال: و مقتضى النظر أنه لايجوز له أن يزيد على قدر طاقتها، أما تعيين المقدار فلم أقف عليه لأئمتنا، نعم في كتب المالكية خلاف فقيل: يقضي عليهما بأربع في الليل و أربع في النهار، و قيل: بأربع فيهما. و عن أنس بن مالك عشر مرات فيهما. وفي دقائق ابن فرحون: باثني عشر مرةً.و عندي أن الرأي فيه للقاضي فيقضي بما يغلب على ظنه أنها تطيقه اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200910

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں