بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر بیوی پر معاملات میں کیسی پابندی لگا سکتا ہے؟


سوال

1- سوال یہ ہے کہ بیوی کو اس کے والدین کتنا جیب خرچ دے سکتے ہیں؟ اور کیا شوہر بیوی کے والدین سے اس کے مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے؟ کیا شوہر کے نوٹس میں لانا ضروری ہے؟ کیا بیوی اپنے والدین یا رشتہ داروں یا اپنے کاروبار سے ملے ہوئے پیسے شوہر کو بتائے بغیر خاموشی سے اپنے پاس نہیں رکھ سکتی؟ کیا ہر مالی معاملہ شوہر کو بتانا ضروری یعنی واجب ہے؟ بیوی کا مالی معاملہ شوہر سے چھپانا جائز ہے؟

2- کیا شوہر بیوی پر یہ پابندی لگا سکتا ہے کہ میں آپ کا شوہر ہوں اور جیب خرچ دینا میری ذمہ داری ہے، لہٰذا آپ والدین سے جیب خرچ نہ لیں؟

3- کیا یہ پابندی لگا سکتا ہے کہ والدین کے تحفے اور ہدیے بھی نہ لیا کرے، جو والدین دیں، اسے واپس کردے، جو میں خرید کر دیتا ہوں، بس وہی پہنا کریں؟

4- کیا یہ پابندی لگا سکتا ہے کہ میرے گھر یا خاندان کی کوئی بات اپنے والدین یا اپنے خاندان کو نہیں بتانی؟ اور اگر پھر بھی بتائے تو وہ گناہ گار ہوگی؟ اگر ہوگی تو ایک دو وعیدیں بتادیں۔

جواب

واضح رہے کہ ازدواجی زندگی بسر کرنے کے لیے شوہر کو کچھ ایسے اقدام کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کا نظام ٹھیک اور صحیح طور پر چلے، میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام و اکرام کرنے والے بن جائیں، شریعت کا بھی یہی حکم ہے، شوہر گھر کا والی و مربی اور مسئول ہے، اس کے ذمہ گھر کے نظام کو درست رکھنا ضروری ہے، لیکن اس بارے میں لڑکے یا لڑکی کے والدین یا ان دونوں کے گھر والوں میں سے اگر کسی کا بھی تعاون نہ ہو تو بسا اوقات پورے گھر کا نظام خراب ہوجاتا ہے، زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں، گھر سے لڑائی شروع ہوکر خاندان، کنبہ و قبیلے تک پنہچ جاتی ہے، لیکن اس کے پیچھے دیکھا جائے تو معمولی معمولی غلطیاں آپ کو نظر آئیں گی، اس لیے والدین کو چاہیے کہ اگر وہ اپنی بیٹی کی خوشی اور آئندہ کی خوشحالی کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اسے جیب خرچ، ہدیے اور تحفے تحائف وغیرہ دینے میں احتیاط کریں، شوہر جب گھر کا ذمہ دار اور کفیل ہے تو وہ خود اس کے اخراجات برداشت کرے، اگر والدین یا رشتہ داروں کو لگتا ہے کہ بیوی کو تحائف دینے سے شوہر کو برا لگتا ہے اور اس کی ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے تو تحائف دینے سے گریز کریں، اس وجہ سے نہیں کہ تحفہ دینا ناجائز ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اس کی وجہ سے ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔

اس مختصر سی تمہید وتفصیل کے بعد اصل سوالوں کے جواب ملاحظہ فرمائیں:

1- عورت پر شوہر کی اطاعت کرنا ان امور میں لازم ہے جو گھریلو اور رشتہ زوجیت سے متعلق ہوں اور ایسی امور میں شوہر بیوی پر پابندی بھی لگا سکتا ہے، تاہم عورت کے ذاتی معاملات میں شوہر دخل اندازی نہیں کرسکتا، جیسے عورت کے ذاتی مالی و اقتصادی معاملات وغیرہ، لہٰذا شوہر اگر بیوی پر یہ پابندی لگائے کہ تمہیں اپنا ہر مالی معاملہ میرے علم میں لانا ضروری ہے تو شوہر بيوی پر یہ پابندی لگانے کا حق نہیں رکھتا، اسی طرح شوہر بیوی کے والدین سے ان کی بیٹی کے جیب خرچ مانگنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي البزازية من الحظر والإباحة: وحق الزوج على الزوجة أن تطيعه في كل مباح يأمرها به اهـ."

(ج:3، ص:237، کتاب النکاح، باب القسم، ط:دار الکتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فتجب للزوجة) ... (على زوجها)، لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته كمفت وقاض ووصي زيلعي ... (ولو صغيرا) جدا في ماله لا على أبيه."

(ج:3، ص:572/ 573، کتاب الطلاق، باب النفقة، ط:سعید)

نظام الأسرة میں ہے:

"4۔أن طاعة المرأة لزوجها ليست الطاعة العمياء المطلقة ، بل هي الطاعة الواعية المستنيرة المقيدة باعتبارات اهمها:

أ۔ ان تكون طاعة الزوجة لزوجها مقصورة علي الجوانب المتعلقة بشئون الأسرة وقضايا الزوجية، أما شئون المرأة الخاصة فتحتفظ فيها المرأة باستقلالها كالنواحي المالية والاقتصادية."

(ص:36، نظام الأسرة في الإسلام للدكتور محمد عقلة، الجزء الثاني، ط:مكتبة الرسالة الحديثية)

 نظام الأسرة وحل مشكلاتها في ضوء الإسلام میں ہے:

"5۔ للمرأة حريتها الكاملة في التصرف في أموالها دون رقابة الزوج، إذ لا ولاية للزوج علی مال زوجته، كما أنها تحتفظ باسمها و باسم عائلتها."

(ص:52، نظام الأسرة وحل مشكلاتها في ضوء الإسلام للدكتور عبد الرحمن الصابوني، ط:دار الفكر)

2- شوہر بیوی پر یہ پابندی لگا سکتا ہے کہ تم اپنے والدین سے جیب خرچ نہ لیا کرو یا نہ مانگا کرو، شوہر از خودبیوی کو جیب خرچ دیا کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به، وله منعها من الغزل ومن أكل ما يتأذى من رائحته، بل ومن الحناء والنقش وإن تأذى برائحته نهر وتمامه فيما علقته على الملتقى.

(قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به ط."

(ج:3، ص:208، کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، فروع، ط:سعید)

وایضاً:

"(فتجب للزوجة) ... (على زوجها)، لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته كمفت وقاض ووصي زيلعي ... (ولو صغيرا) جدا في ماله لا على أبيه."

(ج:3، ص:572/ 573، کتاب الطلاق، باب النفقة، ط:سعید)

3- شوہر بیوی پر یہ پابندی نہیں لگا سکتا کہ وہ اپنے والدین یا رشتہ داروں سے تحفے اور ہدیے قبول نہ کرے، تاہم والدین اور رشتہ داروں کو خود احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی متاثر نہ ہو۔

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال: ایک بات میں بندہ نے بہت خوض کیا، مگر کتابوں سے یا اس ملک کے اور صاحبوں سے حل نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہوں اور بارگاہِ عالی میں عرض کیا جاتا ہے کہ ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو کچھ تحفے یا روپے پیسے نہایت خوشی سے دینے لگے، جس کو دینے لگے، وہ شخص نامنظور کرنے لگے، دینے والے نے کہا: یہ تحفے نہیں لینے سے میں نہایت ناخوش ہوتا ہوں، لینے والے نے کہا: میں اس کو نہیں لینے سے بہت خوش ہوتا ہوں، اب ہر دو ناخوش اور ناراض ہیں، اس صورت میں کیا کرنا چاہیے، بالتفصیل تحریر کریں گے، حالانکہ یہ تحفے کچھ عیب شرعاً نہیں ہے؟ فقط

الجواب: جب اس ہدیہ كو قبول کرنے سے کوئی امر مانع شرعی نہیں تو لینے والے کا یہ کہنا کہ میں اس کو نہیں لینے سے بہت خوش ہوتا ہوں، سخت غلطی اور شعبہ کبر کا ہے جو سنت کے بالکل خلاف ہے، حدیث میں ’’تہادوا تحابوا‘‘ صریح حکم ہے، اگر بلا عذر مہدی الیہ انکار کرے تو ’’تہادوا‘‘ پر عمل کس طرح ہوگا۔"

(ج:3، ص:483، کتاب الہبۃ، ط:دار العلوم کراچی)

4- شوہر بیوی پر یہ پابندی لگا سکتا ہے کہ میرے گھریا خاندان کی بات اپنے گھر یا خاندان والوں کو نہیں بتانی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وله أن يمنعها من أكل ما يتأذى من رائحته ومن الغزل، وعلى هذا له أن يمنعها من التزيين بما يتأذى بريحه كأن يتأذى برائحة الحناء الأخضر ونحوه، وله ضربها بترك الزينة إذا كان يريدها وترك الإجابة وهي طاهرة والصلاة وشروطها كذا في فتح القدير."

(ج:1، ص:341، کتاب النکاح، الباب الحادي عشر في القسم، مسائل في القسم بین الزوجات، ط:رشیدیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144303100053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں