بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر 2 بیٹے 3 بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم / زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

1۔ میرے سسر نے 33 سال پہلے کچھ پیسے دئیے تھے اور کہا تھا کہ اس سے دکان لے کر آپ خود اپنے لیے کوئی کاروبار کرلو اور پیسے دیتے وقت سسر نے اس طرح کوئی بات نہیں کی تھی کہ یہ پیسے میں ادھار دے رہا ہوں یا بطور گفٹ دے رہا ہوں،بلکہ بغیر کسی صراحت کے دئیے تھے پھر میں نے اس سے دکان پگڑی پر لے لی،پھر ابھی 2016 میں وہ دکان اس کے اصل مالک نے مجھ سے خالی کرادی اور مجھے پگڑی کی مد میں جمع کرائی ہوئی رقم واپس کردی۔ پھر میں نے اپنے بچوں سے کچھ پیسے ادھار لے کر اس پر تعمیر کروائی۔

میں نے اپنی بیوی کا نام اس پلاٹ کی خریداری کے کاغذات پر لکھوایا تھا اس سے میرا مقصد اس کو آدھے پلاٹ کا مالک بنانا تھا۔اب میری بیوی کا انتقال ہوچکا ہے،بیوی کے والدین ان کی حیات میں ہی فوت ہوچکے تھے۔

ورثاء میں شوہر،تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ بیوی کا حصہ اس کے ورثاء کے درمیان کس طرح تقسیم ہوگا؟

2۔  مذکورہ مکان میں  میرا جو حصہ ہے اس کو اولاد کے درمیان تقسیم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ کیوں کہ میں زندگی میں اولاد کو  ان کا حصہ دینا چاہ رہا ہوں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کی جانب سے اپنے سسر سےمذکورہ رقم کے تقاضہ کیے بغیر سسر نے دکان اور کاروبار کے  لیے جتنی رقم دی تھی، اور قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں کی تھی تو شرعًا اس رقم کی حیثیت سائل کے حق میں سسر کی جانب سے تبرع  و احسان کی تھی، بعد ازاں سائل نے پگڑی  کی مد میں جو رقم  جمع کراکر واپس لی تو سائل اس رقم کا مالک تھا، زیر  نظر مسئلہ میں سائل نے مذکورہ رقم سے جو پلاٹ اپنے  لیے اوراپنی اہلیہ کے  لیے خریدا اور آدھے پلاٹ کا اسے مالک بنادیا تھا، تو مذکورہ آدھا پلاٹ بیوی کے انتقال کے بعد مرحومہ  بیوی کا ترکہ ہے، جس میں سائل سمیت مرحومہ کے تمام شرعی ورثاء اپنے اپنے حصوں کے تناسب سے حق دار  ہیں۔

1۔ صورتِ  مسئولہ میں مرحومہ  کے  ترکہ کی تقسیم کی صورت یہ ہے کہ مرحومہ کے  حقوق متقدمہ   میں سے اگر مرحومہ پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے، اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کیا جائے، اس کے  بعد باقی کل ترکہ  منقولہ و غیر منقولہ کو 28 حصوں میں تقسیم کرکے ، 7 حصے مرحومہ کے شوہر ( سائل) کو، 6 حصے ہر ایک بیٹے کو، 3 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے، جبکہ مرحومہ کے کفن دفن کے اخراجات سائل کے ذمہ ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يجب الكفن على الزوج و إن تركت مالًا و عليه الفتوى، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز ، الفصل الثالث في التكفين، ١ / ١٦١، ط: دار الفكر) 

صورت تقسیم یہ ہے:

میت: 4 / 28

شوہربیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
13
766333

یعنی 100 روپے میں سے 25 روپے مرحومہ کے شوہر کو، 21 روپے 42 پیسے ہر ایک  بیٹے کو، 10 روپے 71 پیسے  ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

2۔ صورتِ  مسئولہ  میں سائل جب تک حیات ہے، اس کی تمام جائیداد اسی کی ملکیت رہے گی، اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے، سائل اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں جس قسم کا جائز تصرف کرنا چاہے کر سکتا ہے، تاہم زندگی میں اپنی مرضی اور خوشی سے  اگر اپنی جائیداد اپنی اولاد   کے درمیان تقسیم کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے، تاہم تقسیم  کرتے وقت   تمام اولاد میں برابری کرنا ضروری ہوگا، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو  دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کے، اولاد کے درمیان زندگی میں تقسیم کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ سائل اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا مختص کرنا چاہے، کر لے ، تاکہ بوقت ضرورت کام آئے،  اس کے بعد بقیہ جائیداد کو اپنی تمام اولاد  میں برابر تقسیم کردے، اور ہر ایک کو  اس  کے حصہ پر مالکانہ  قبضہ   دے دے، اور برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے، البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول وجہ کی بنا پر اوروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے سکتا ہے،  یعنی کسی کی کثرت شرافت و دینداری کے، یا خدمت گزار ہونے خے، یا تنگدستی کی وجہ سے اوروں کے بنسبت کچھ زیادہ دے سکتا ہے۔

تاہم مذکورہ گھر میں چونکہ سائل کی رہائش بھی ہے، لہذا جب تک اس سے اپنی  رہائش ختم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ کا مالک نہیں بنادیتا اس وقت تک بالغ اولاد کے   محض نام کردینے سے شرعا مذکورہ جائیداد ان کی ملکیت شمار نہیں ہوگی۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"المادة ( ١١٩٢ ) - (كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال. مثلًا: الأبنية التي فوقانيها ملك لأحد وتحتانيها لآخر فبما أن لصاحب الفوقاني حق القرار في التحتاني ولصاحب التحتاني حق السقف في الفوقاني أي حق التستر والتحفظ من الشمس والمطر فليس لأحدهما أن يعمل عملًا مضرًّا بالآخر بدون إذنه ولا أن يهدم بناء نفسه).

كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

( الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، ٣ / ٢٠١  ، ط: دار الجيل)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"وفي السراجية وينبغي أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل عند أبي يوسف أن يعطيهم على السواء هو المختار كما في الخلاصة.

وعند محمد يعطيهم على سبيل المواريث، وإن كان بعض أولاده مشتغلا بالعلم دون الكسب لا بأس بأن يفضله على غيره، وعلى جواب المتأخرين لا بأس بأن يعطي من أولاده من كان عالما متأدبا ولا يعطي منهم من كان فاسقا فاجرا۔"

( كتاب الهبة، اركان الهبة، ٢ / ٣٥٨، ط: دار إحياء التراث العربي )

الدار المختار شرح تنوير الابصار میں ہے:

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم۔"

( كتاب الهبة، ٥ / ٦٩٦، ط: دار الفكر)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"وعن أبي يوسف لا يجوز للرجل أن يهب لامرأته، أو أن تهب لزوجها ولأجنبي دارا وهما فيها ساكنان، كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن الواهب إذا كان في الدار فيده بائن على الدار، وذلك يمنع تمام يد الموهوب له، قال: ولو وهبها لابنه الصغير وهو ساكن فيها يعني الواهب جاز وقد مر۔"

( كتاب الهبة والصدقة، الفصل الخامس: في الرجوع في الهبة، ٦ / ٢٥٠، ط: دار الكتب العلمية)

حاشية الشرنبلالي میں ہے:

"(قوله: وهبت دارها من زوجها وهي ساكنة فيها مع الزوج جاز) كذا في البزازية قلت: لأنها وما في يدها في يد الزوج فلم تكن يدها مانعة من قبضه اهـ لكن نقل في الذخيرة عن المنتقى عن أبي يوسف لا يجوز للرجل أن يهب من امرأته وأن تهب لزوجها أو الأجنبي دارا وهما ساكنان فيها وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة على الدار. اهـ."

( درر الحكام شرح غرر الأحكام، كتاب الهبة، ما تصح به الهبة، ٢ / ٢٢٠، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا يجوز للرجل أن يهب لامرأته ولا أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارا وهما فيها ساكنان، وكذلك للولد الكبير، كذا في الذخيرة."

( كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ٤ / ٣٨٠، ط: دار الفكر)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(المادة ٨٥٠) - (إذا وهب أحد لابنه الكبير العاقل البالغ شيئا يلزم التسليم والقبض) .

قبض العاقل البالغ في الهبة شرط ولا يكفي قبض الآخرين فضولا كالأب والزوج وعليه لو وهب أحد لولده الكبير أي ابنته أو ابنه العاقل البالغ شيئا سواء أكان ذلك الشيء في يد الشخص أم في يد المستودع أم الغاصب أم المستأجر فيلزم تسليم الواهب وقبض الموهوب له ولو كان الولد الموهوب له لا يزال في عيال ذلك الشخص يعني يلزم التسليم والقبض في الهبة للولد الكبير كما في الهبة لأجنبي إذ لا يجري في ذلك حكم المادة الآتية فلا يكفي أن يكون المال الموهوب في يد الأب الواهب أو أن يجدد الأب بعد الهبة القبض... قال الطحطاوي: الهبة للولد الكبير لا تتم إلا بقبضه ولو كان في عيال۔"

( الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة، الفصل الأول في بيان مسائل متعلقة بركن الهبة وقبضها، ٢ / ٤ض٧ - ٤١٨، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں